بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 ذو القعدة 1446ھ 11 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

نماز نہ پڑھنے پر مالی جرمانہ لینے کا حکم


سوال

ایک ٹھیکہ دار اپنے مزدوروں سے نماز نہ پڑھنے پر سو روپے جرمانہ لیتا ہے اور پھر ان پیسوں سے کچھ نہ کچھ منگوا لیتا ہے  اور ان ہی مزدوروں کو کھلاتا ہے،اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا نماز نہ پڑھنے پر یہ جرمانہ لینا اور ان مزدوروں کو کھلانا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اول تو یہ کہ نماز کا خوب اہتمام کرنا چاہیے ،جماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ،نماز چھوڑنا مسلمان کی شان نہیں ،نیز ٹھیکہ دار کا مزدوروں کی نماز کی فکر کرنا قابل ستائش ہے مگر انہوں نے جو طریقہ اپنایا ہے کہ نماز چھوڑنے پر سو روپے جرمانہ لیا جائے گا، یہ درست نہیں،اس لیے  اگر کسی مزدور سے نماز رہ جائے تو مذکورہ ٹھیکہ دار کا ان سے سو روپے جرمانہ لینا  جائز نہیں،اور پھر ان پیسوں سےکچھ  منگوا کر مزدوروں کو کھلانا بھی جائز نہیں کیونکہ کسی کا مال بغیر اس کے دلی رضامندی کے کھانا حلا ل نہیں،لہذا مذکورہ ٹھیکہ دار نے جتنا جرمانہ ان مزدوروں سے لیا ہے ان پر لازم ہے کہ ان مزدوروں کو واپس لوٹائے،البتہ ترغیب کے ساتھ مزدوروں کو نماز پڑھنے کا عادی بنائےیہ مستحسن اور باعث ثواب ہے۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي سفيان، قال: سمعت جابرا رضي الله عنه يقول: سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول: «إن بين الرجل و بين الشرك و الكفر ترك الصلاة."

(‌‌كتاب الإيمان،‌‌باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة،،ج:1، ص: 16،ط: دار الطباعة العامرة)

"ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ : نماز کا چھوڑنا بندہ مؤمن اور شرک و کفر کے درمیان (کی دیوار کو ڈھا دیتا) ہے۔ (مظاہر حق )"

مسند أحمد میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه: ذكر الصلاة يوما فقال: من حافظ عليها كانت له نورا و برهانا و نجاة يوم القيامة، و من لم يحافظ عليها لم يكن له نور و لا برهان و لا نجاة و كان يوم القيامة مع قارون و فرعون و هامان و أبي بن خلف."

(‌‌مسند عبد الله بن عمرو بن العاص - رضي الله عنهما، ج:11، ص:141،ط: مؤسسة الرسالة)

 

"ترجمہ:حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کا ذکر کیا (یعنی نماز کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرنے کا ارادہ فرمایا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص نماز پر محافظت کرتا ہے (یعنی ہمیشہ پابندی سے پڑھتا ہے) تو اس کے لیے یہ نماز ایمان کے نور (کی زیادتی کا سبب) اور ایمان کے کمال کی واضح دلیل ہوگی، نیز قیامت کے روز مغفرت کا ذریعہ بنے گی، اور جو شخص نماز پر محافظت نہیں کرتا تو اس کے لیے نہ (ایمان کے) نور (کی زیادتی کا سبب بنے گی،) نہ (کمال ایمان کی) دلیل اور نہ (قیامت کے روز) مغفرت کا ذریعہ بنے گی، بلکہ ایسا شخص قیامت کے روز قارون، فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ (عذاب میں مبتلا) ہوگا۔(مظاہر حق)۔"

مشکاۃ المصابیح  میں ہے :

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

"ترجمہ:الله كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمايا:خبردار ہوجاؤ! ظلم نہ کرو،خبردار ہوجاؤ! کسی آدمی کا مال  اسی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے"

(باب الغصب والعارية 261/1ط: رحمانية)

فتاوی شامی  ہے:

"والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال، وسيذكر الشارح في الكفالة عن الطرسوسي أن مصادرة السلطان لأرباب الأموال لا تجوز إلا لعمال بيت المال: أي إذا كان يردها لبيت المال...(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه  ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان.وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي..وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. "

(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:62، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144602100307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں