بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں تکبیرِ انتقال سے متعلق ایک سوال


سوال

تکبیر انتقالیہ کسے کہتے ہیں اور اس کا وقت کب سے کب تک ہوتا ہے ؟

جواب: تکبیراتِ انتقال نماز میں ایک رُکن سے دوسرے رُکن کی طرف منتقل ہونے کی تکبیرات کو کہتے ہیں ، تکبیرات ِ انتقال کا طریقہ اور اس کا وقت یہ ہے کہ ہیئت تبدیل کرتے ہوئے تکبیر کہے اور جب دوسرے رکن کی ہیئت تک پہنچے تو پہنچنے پر تکبیر ختم کرے،یعنی ایک رکن سے دوسرے رکن میں منتقل ہونے کے درمیانی عرصہ کے اندر اداکی جائے ،مثلا ً رکوع کےلیے جھکنے کی ابتدا میں ’’اللہ اکبر ‘‘ کی ابتدا ہو اور رکوع میں پہنچتے ہی اس کی انتہا ہوجائے ،رکوع میں پہنچ جانے کے بعدتکبیر کہنا خلافِ سنت اور مکروہ ہے ۔

سوال:مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ تجوید کے اعتبار سے (اللّٰہ اکبر) میں لام مشدد پر کھڑا زبر ہے جس پر صرف مد اصلی جائز ہے، نہ کہ مد فرعی اور مد اصلی کو صرف ایک الف کے مقدار کے برابر لمبا کیا جا سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں، اب جب ہم نماز میں رکوع سے فارغ ہو جائیں اور (ربنا لک الحمد) پڑھنے کے بعد جب ہم سجدے میں جاتے ہیں یا سجدے سے ڈائریکٹ قیام کے لیے جاتے ہیں تو اس صورت میں اگر ہم اللّٰہ کی لام پر مد اصلی کرتے ہیں تو ایک رکن سے دوسرے رکن تک پہنچنے سے پہلے پہلے تکبیر ختم ہو جاتی ہے اور اگر لفظ اللّٰہ کی لام پر مد فرعی کرتے ہیں تو اس صورت میں تو تکبیر ہمیں ایک رکن سے دوسرے رکن تک تو پہنچائے گی، لیکن تجوید کے قاعدے کی   خلاف ورزی  ہو جائے گی، اب ہم کیا کریں  ؟  اللّٰہ اکبر کو مد اصلی کے ساتھ پڑھیں یا مد فرعی کے ساتھ ؟ 

جواب

سوالِ مذکور میں آپ نے جس فتوے کا حوالہ  دیا ہے اُس میں یہ تو لکھا ہے کہ رکن کی ادائیگی کے بعد تکبیرِ انتقال کہنا یہ مکروہ ہے ، کیوں کہ اس صورت میں وضع الشیئ فی غیر محلهوالی خرابی لازم آرہی ہے ، لیکن یہ نہیں لکھا ہوا کہ رکن ختم ہونے سے پہلے تکبیر پوری ہوجانا یہ بھی مکروہ ہے ، اسی طرح مذکورہ فتوے میں جو حوالہ دیا گیا ہے اس میں بھی تکبیر انتقال کو رکن کی ادائیگی کے بعد کہنا تو مکروہ لکھا گیا ہے، لیکن رکن ختم ہونے سے پہلے پہلے تکبیرِ انتقال کا ختم ہوجانا ، یہ مکروہ نہیں لکھا گیا ، چنانچہ حوالہ دوبارہ ملاحظہ فرمائیے :

وفي البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري:

"ثم اعلم أن المصنف لم يستوف ذكر المكروهات في الصلاة فمنها أن كل سنة تركها فهو مكروه تنزيها كما صرح به في منية المصلي من قوله: ويكره وضع اليدين على الأرض قبل الركبتين إذا سجد ... وأن يأتي بالأذكار المشروعة في الانتقالات بعد تمام الانتقال و فيه خللان تركها في موضعها وتحصيلها في غير موضعها ذكره في مواضع متفرقة من مكروهات الصلاة."

(البحر الرائق : (2/ 34) ط: دار الكتاب الإسلامي)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اولا تو کوشش یہی ہونی چاہیے کہ جتنا ہوسکے تکبیرِ انتقال اور رکن کی ادائیگی ساتھ ساتھ ہی ہو اور یہی افضل ہے ، تاہم اگر تکبیرِ انتقال پہلے مکمل ہوجائے اور رکن بعد میں مکمل ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406101496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں