بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں تلفظ کی غلطی کرنا


سوال

اگر نماز میں سورۃ الفیل میں " بأصحٰب " کے، ح، کی جگہ ،ھ، پڑھ لیا، یا آخری آیت میں "ماْكول"کے  ،ء،  کی جگہ، ع ،پڑھ لیا تو کیا نماز  ہوجائے گی؟

جواب

عوام جو مخارج اور صفات سے واقف نہیں بوجہ ناواقفیت یا عدم تمیز کے اگران کی زبان سے ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف نکل جائے (خواہ کوئی حرف ہو) اور وہ یہ سمجھے کہ  میں نے وہی حرف نکالا ہے جو قرآن شریف میں ہے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی، اور جو شخص واقف ہے اور صحیح حرف نکالنے پر قادر بالفعل ہے اور پھر بھی جان بوجھ  کر  یا بے پروائی سے غلط حرف نکالتا ہے تو جس جگہ معنی میں تغیر فاحش پیدا ہو جائیگا   نماز  فاسد قرار دی جائے گی۔

صورت مسؤلہ میں م”ح“ کی جگہ ”ھ“ پڑھنا اور  "ء" کی جگہ"ع" پڑھنا یہ ایسی غلطی نہیں ہے  جس سے معنیٰ کی خرابی کی وجہ سے نماز فاسد ہو جائے، سائل  کو چاہیے تلفظ کی صحیح ادائیگی کی کوشش مکمل جاری رکھے ،    کوشش کریں کہ ہرحرف کو اس کے مخرج سے ادا کریں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في الخانية والخلاصة: الأصل فيما إذا ‌ذكر ‌حرفا ‌مكان ‌حرف وغير المعنى إن أمكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد، وإلا يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين والصاد مع السين المهملتين والطاء مع التاء قال أكثرهم لا تفسد. اهـ. وفي خزانة الأكمل قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، وإن جرى على لسانه أو لا يعرف التمييز لا تفسد، وهو المختار حلية وفي البزازية: وهو أعدل الأقاويل، وهو المختار اهـ وفي التتارخانية عن الحاوي: حكى عن الصفار أنه كان يقول: الخطأ إذا دخل في الحروف لا يفسد لأن فيه بلوى عامة الناس لأنهم لا يقيمون الحروف إلا بمشقة. اهـ. وفيها: إذا لم يكن بين الحرفين اتحاد المخرج ولا قربه إلا أن فيه بلوى العامة كالذال مكان الصاد أو الزاي المحض مكان الذال والظاء مكان الضاد لا تفسد عند بعض المشايخ.  قلت: فينبغي على هذا عدم الفساد في إبدال الثاء سينا والقاف همزة كما هو لغة عوام زماننا، فإنهم لا يميزون بينهما ويصعب عليهم جدا كالذال مع الزاي ولا سيما على قول القاضي أبي عاصم وقول الصفار، وهذا كله قول المتأخرين، وقد علمت أنه أوسع وأن قول المتقدمين أحوط قال في شرح المنية: وهو الذي صححه المحققون وفرعوا عليه، فاعمل بما تختار، والاحتياط أولى سيما في أمر الصلاة التي هي أول ما يحاسب العبد عليها."

(كتاب  الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،ج: 1، ص: 613، ط: دار الفكر)

جواہر الفقہ میں ہے:

چونکہ متاخرین کے ضابطہ مذکورہ کی بنا پر عوام میں زیادہ بے پروائی پیدا ہو جانے کا احتمال تھا اس لئے محققین متاخرین نے ایک بین بین اور متوسط ضابطہ تجویز فرمایا  جس  میں عوام پر تنگی بھی نہیں اور اصل حکم سے زیادہ بعد بھی نہیں وہ یہ ہے کہ :- عوام جو مخارج اور صفات سے واقف نہیں بوجہ ناواقفیت یا عدم تمیز کے اگران کی زبان سے ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف نکل جائے (خواہ کوئی حرف ہو) اور وہ یہ سمجھے کہ  میں نے وہی حرف نکالا ہے جو قرآن شریف میں ہے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی۔(حسب ضابطہ متاخرین ) -اور جو شخص واقف ہے اور صحیح حرف نکالنے پر قادر بالفعل ہے اور پھر بھی جان بوجھ  کر  یا بے پروائی سے غلط حرف نکالتا ہے تو جس جگہ معنی میں تغیر فاحش پیدا ہو جائیگا حسب ضابطہ متقدمین اُس کی نماز  فاسد قرار دی جائے گی۔

(جواہر الفقہ، جلد:1،ص:336، طبع: مکتبہ دارالعلوم کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100989

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں