بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں رفع الیدین ضروی ہے یا نہیں؟


سوال

نماز ميں رفع الیدین ضروری ہے یا نہں؟ دلائل کے ساتھ رہنمائی فرمادیجیے !

جواب

صورتِ مسئولہ میں وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت کےلیے اور عیدین کی نماز کے علاوہ، عام نمازوں میں  صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفعِ یدین کرنا مسنون ہے، رکوع کو جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتےہوئے اور تیسری رکعت کے شروع میں رفع یدین کرنے اور چھوڑنے دونوں طرح کے روایات موجود ہیں اور دونوں قسم کی روایات صحیح ہیں، دونوں قسم کی روایات میں غور کرنے سے معلوم  ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک شروع شروع میں رفعِ یدین کرنے کا تھا،  لیکن آخری عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع یدین ترک کرنے کا تھا، اس لیے احناف کہتے ہیں کہ  رفع یدین کی روایات منسوخ ہیں، اور رفع یدین نہ کرنے کی روایات ناسخ ہیں، جیسا کہ ’’طحاوی‘‘ اور ’’مؤطا امام محمد‘‘ میں وہ روایات صراحت سے موجود ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی  اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے تھے، باقی اور کسی تکبیر کے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے، حالانکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے رفع یدین کرنے کی روایت منقول ہے، تو جو صحابی رفع یدین کی روایت نقل کررہے ہیں، اس کے باوجود  اپنے نقل کردہ روایت  کے خلاف عمل کررہے ہیں، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ترکِ رفع یدین ہے، اس وجہ سے صحابہ کرام میں سے ایک بڑی جماعت رفع یدین نہیں فرماتی تھی جن میں چاروں خلفائے راشدین، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت جابر بن سمرہ، حضرت براء بن عازب وغیرہم رضی  اللہ عنہم اجمعین رفع یدین نہیں فرماتے تھے۔

اور چوں کہ رفع یدین کے بارے میں دونوں قسم کی روایات موجود ہیں اسی وجہ سے مجتہدینِ امت میں بھی یہ مسئلہ مختلف فیہ رها،امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ نے ترکِ رفع یدین والی روایات کوراجح قراردیتے ہیں، جب کہ امام شافعی و امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ  رفع یدین کی روایات کو راجح قرار دیتے ہوئے  رفع الیدین کرنے کو سنت سمجھتے ہیں۔

قرآن مجيد ميں ہے:

{قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ  الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ} (سورة المؤمنون،اٰیت:1۔2)

اس آیت کے تحت تفسیر ابن عباس میں ہے:

"عن أبي صالح عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : { الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ} مخبتون متواضعون لایلتفتون یمینًا و لا شمالًا و لایرفعون أیدیهم في الصلاۃ".

(تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس،ص:284، ط:دار الکتب)

شرح معاني الآثار  میں ہے:

"عن مجاهد، قال: «صليت خلف ابن عمر رضي الله عنهما فلم يكن يرفع يديه إلا في التكبيرة الأولى من الصلاة» فهذا ابن عمر قد رأى النبي صلى الله عليه وسلم يرفع ، ثم قد ترك هو الرفع بعد النبي صلى الله عليه وسلم فلايكون ذلك إلا وقد ‌ثبت ‌عنده ‌نسخ."

(كتاب الصلاة، باب التكبير للركوع والسجود، ج:1، ص:225، ط:عالم الكتب)

ترجمہ: "حضرت امام مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی  اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ دونوں ہاتھوں کو نماز کی صرف پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے، اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھاتے تھے، تو یہ حضرت ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اور پھر انہوں نے خود حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ہاتھ اٹھانا ترک کردیا، اور ان کا ہاتھ اٹھانا ترک کرنا ہو نہیں سکتا، الاّ یہ کہ ان کے نزدیک حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے رفع یدین کا عمل یقینا منسوخ ہوچکا ہے، اور ان کے نزدیک رفع یدین کے منسوخ ہونے پر حجت قائم ہوچکی ہے۔"

سنن ابي داؤد میں ہے:

"عن ‌البراء: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه إلى قريب من أذنيه، ثم لايعود".

(كتاب الصلاة، باب من لم يذكر الرفع عند الركوع، ج:1، ص:273، ط:الطبعة الأنصارية)

ترجمہ:" حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جس وقت نماز شروع فرمائی تھی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، اس کے بعد پھر اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔"

شرح معاني الآثار  میں ہے:

"عن المغیرة قال: قلت لإبراهيم: حدیث وائل أنه رأی النبي صلی الله علیه وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع، فقال:إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك". 

(كتاب الصلاة، باب التكبير للركوع، والسجود، ج:1، ص:224، ط:عالم الكتب)

ترجمہ:" حضرت مغیرہؒ نے حضرت امام ابراہیم نخعیؒ سے حضرت وائل ابن حجرؒ کی حدیث ذکر فرمائی کہ حضرت وائل بن حجرؒ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس پر ابراہیم نخعیؒ نے مغیرہ سے کہا کہ اگر وائل بن حجرؓ نے حضور ﷺ کو اس طرح رفع یدین کرتے ہوئے ایک مرتبہ دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ نے حضور کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔"

سنن الترمذى میں ہے:

"عن علقمة، قال: قال عبد الله بن مسعود: «ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة». وفي الباب عن البراء بن عازب. حديث ابن مسعود حديث حسن، وبه يقول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، والتابعين، وهو قول سفيان الثوري، وأهل الكوفة".

(أبواب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، ج:2، ص:40، ط:مصطفي البابي)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تم آگاہ ہوجاؤ! بے شک میں تم کو حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاکر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اول تکبیر میں اٹھایا پھر پوری نماز میں نہیں اٹھایا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں