بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں قراءت میں غلطی ہونے کی صورت میں نماز کا حکم


سوال

۱۔ایک شخص فرض نماز میں سورۃ التکاثر کی چھٹی اور ساتویں آیات میں"لَتَرَوُنَّ" میں "ت" کا تلفظ "ط "کے ساتھ کرےیا کرتاہو تو کیا فرض نماز ادا ہو جائے گی؟

۲۔اگر سورۃ العادیات کی نویں آیتِ مبارکہ میں "بُعْثِرَ" کاتلفظ "ع "کی جگہ "ء" کے ساتھ کرےیا کرتا ہو تو کیا فرض نماز ادا ہو جائے گی؟ اور دسویں آیتِ مبارکہ میں"وَحُصِّلَ" کے تلفَظ میں "ح"کی جگہ"ھ" سے کرے یا 'ح ' اور 'ھ' کی درمیانی آواز نکالے تو کیا اس صورت میں اس کی نماز ادا ہوجائے گی؟ اور اگر مذکور شخص  امام ہو تو مقتدیوں کی نمازوں کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ  اگرکوئی شخص نماز   کی   قراءت میں       دوحرفوں کے  درمیان آسانی  سے بغیر کسی مشقت کے  فرق کرسکتا ہے،   مگر پھر بھی اس نےفرق نہیں کیا اور ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف  پڑھ لیا  اور معنی بدل گیا  تو نماز فاسد ہوجائے گی ، اور اگر اس کے لیے دوحرفوں کے درمیان فرق کرنا دشوار ہو، جیسے:سین اورصاد میں،ظاء اورضاد میں ،طاء اورتاء میں،عین اورہمزہ میں،حاء اورہاء میں ، تو اس صورت میں اگر  اس  نے قصداً ایک حرف کی جگہ دوسرا پڑھ لیا ہو  تو بھی نماز فاسد ہوجائے گی، اور اگر بلاقصد ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف  زبان سے نکل گیاہو، یا ایسا ناواقف اور اَن پڑھ شخص  ہو  کہ جو دونوں حرفوں  میں فرق کونہ جانتا ہو تو نماز ہوجائے گی، یہ سائل کے سوال کا اصولی جواب تھا۔

باقی دارالافتاء کے ضابطے کے مطابق جب تک امام صاحب سے براہِ راست قراءت نہ سنی جائے فتوی نہیں دیاجاتا، اس لیے اگر سائل کو اپنے امام کی قراءت پر شبہ ہےتو وہ امام صاحب کے ساتھ اپنے قریبی دارالافتاء سے رجوع کرے، اورمفتیانِ کرام امام صاحب کی قراءت سن کرجواب دیں،ممکن ہے کہ امام صاحب کی قراءت درست ہواور سائل کوسننے میں مغالطہ لگا ہو۔

الدر مع الرد میں ہے:

"ولو ‌زاد ‌كلمة أو نقص كلمة أو نقص حرفاأو قدمه أو بدله بآخر نحو من ثمره إذا أثمر واستحصد - تعالى جد ربنا - انفرجت بدل - انفجرت - إياب بدل - أواب - لم تفسد ما لم يتغير المعنى إلا ما يشق تمييزه كالضاد والظاء فأكثرهم لم يفسدها.... (قوله إلا ما يشق إلخ) قال في الخانية والخلاصة: الأصل فيما إذا ذكر حرفا مكان حرف وغير المعنى إن أمكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد، وإلا يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين والصاد مع السين المهملتين والطاء مع التاء قال أكثرهم لا تفسد. اهـ. وفي خزانة الأكمل قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، وإن جرى على لسانه أو لا يعرف التمييز لا تفسد، وهو المختار حلية وفي البزازية: وهو أعدل الأقاويل، وهو المختار اهـ .... قلت: فينبغي على هذا عدم الفساد في إبدال الثاء سينا والقاف همزة كما هو لغة عوام زماننا، فإنهم لا يميزون بينهما ويصعب عليهم جدا كالذال مع الزاي ولا سيما على قول القاضي أبي عاصم وقول الصفار، وهذا كله قول المتأخرين، وقد علمت أنه أوسع وأن قول المتقدمين أحوط قال في شرح المنية: وهو الذي صححه المحققون وفرعوا عليه، فاعمل بما تختار، والاحتياط أولى سيما في أمر الصلاة التي هي أول ما يحاسب العبد عليها" .

(الدر مع الرد، کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ  ومایکرہ فیہا،ج:۱،ص:۶۳۲۔۶۳۳،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101806

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں