بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں پاؤں زمین سے اٹھانے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز کے دوران پاؤں زمین سے اوپر اٹھ جانے کی صورت میں کیا حکم ہے؟ آیا نماز فاسد ہوجاتی ہے یا مکروہ؟

جواب

صورت مسئولہ میں دوران نماز قیام کی حالت میں بلاعذر پاؤں اٹھانا مکروہ ہے، تاہم کسی عذر کے سبب اٹھالیا تو اس صورت میں کراہت نہیں ہوگی، البتہ سجدہ کی حالت میں دونوں پاؤں کو زمین پر رکھنا ضروری ہے،اگر سجدے کے دوران دونوں پاؤں کو زمین سے مکمل طور پر اٹھائے رکھا، اور کسی بھی لمحے زمین سے نہیں لگا تو سجدہ نہیں ہوگا، جب سجدہ (فرض) نہیں ہوگا تو نماز بھی نہیں ہوگی،نماز نہیں ہوگی  تو اس نماز کا اعادہ لازم ہوگا، نیز عذر کے بغیر ایک پاؤں بھی اٹھائے رکھنا مکروہ تحریمی ہے، لہذا سجدے کے دوران دونوں پاؤں میں سے ایک پاؤں کا کچھ بھی حصہ زمین سے لگانا فرض ہے، یعنی کم ازکم ایک انگلی کسی بھی وقت سجدہ کے دوران زمین پر ٹھہر جائے یا لگ جائے تو سجدہ ادا ہوجائے گا،  سجدہ ادا ہوجائے گا تو فرض بھی ادا ہوجائے گااور نماز صحیح ہوجائے گی۔

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري میں ہے:

"(قوله: والقيام) يعني في صلاة الفرض والوتر وحد القيام أن يكون بحيث إذا مد يديه لا ينال ركبتيه ويكره القيام على ‌أحد ‌القدمين في الصلاة من غير عذر وتجوز الصلاة وللعذر لا تكره كذا في الفتاوى."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة: 1/ 50، ط: المطبعة الخيرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره القيام على ‌أحد ‌القدمين في الصلاة بلا عذر."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صفة الصلاة، فرائض الصلاة، مطلب قد يطلق الفرض على ما يقابل الركن وعلى ما ليس بركن ولا شرط: 1/ 444، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(ومنها السجود) بجبهته وقدميه، ووضع إصبع واحدة منهما شرط۔ قال ابن عابدین: (قوله وقدميه)... وأفاد أنه لو لم يضع شيئا من القدمين لم يصح السجود."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صفة الصلاة، فرائض الصلاة، مطلب قد يطلق الفرض على ما يقابل الركن وعلى ما ليس بركن ولا شرط: 1/ 447، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو سجد ولم يضع قدميه على الأرض لا يجوز ولو وضع إحداهما جاز مع الكراهة إن كان بغير عذر. كذا في شرح منية المصلي لابن أمير الحاج ووضع القدم بوضع أصابعه وإن وضع أصبعا واحدة فلو وضع ظهر القدم دون الأصابع بأن كان المكان ضيقا إن وضع إحداهما دون الأخرى تجوز صلاته كما لو قام على قدم واحدة. كذا في الخلاصة."

(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الأول في فرائض الصلاة: 1/ 70، ط: ماجدية)

البحر الرائق میں ہے:

"ويكفيه ‌وضع ‌أصبع واحدة فلو لم يضع الأصابع أصلا ووضع ظهر القدم فإنه لا يجوز؛ لأن وضع القدم بوضع الأصبع وإذا وضع قدما ورفع آخر جاز مع الكراهة من غير عذر كما أفاده قاضي خان وذهب شيخ الإسلام إلى أن وضعهما سنة فتكون الكراهة تنزيهية والأوجه على منوال ما سبق هو الوجوب فتكون الكراهة تحريمية."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة: 1/ 318، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں