بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں غیر مقام وقف پر وقف کرنے کا حکم


سوال

اگر کوئی امام صاحب نماز میں قرآن پڑھتے وقت بے جگہ وقف کرتے ہوں ،مثلا:"أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ ‌مِنَ ‌الْمُشْرِكِينَ"  پر الگ اور"‌وَرَسُولُهُ"پر الگ وقف۔۔ اسی طرح "وَلَا ‌أَكْبَرَ"کے لا پر ،ایسے ہی اکثر جگہوں پر فعل منفی کے لا پر وقف کرتے ہوں اور  پھر وہیں سے دہراتے ہوں کیا اس طرح نماز ہو جاتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نماز پڑھانے والے کاغیر مناسب مقام پر وقف کرنا اسی طرح غیر مناسب مقام سے وصل کرناایک بُرا فعل ہے،جس سے بعض صورتوں میں قرآنِ کریم کے مقصودی مفہوم میں معتد بہٖ تغیر کا پیدا ہوجانا ایک لازمی امر ہے،تاہم اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی،رہی بات کلمہ کے درمیان میں وقف کرنے کی(یعنی فعل منفی میں لا نافیہ الگ پڑھنا اور فعل الگ پڑھنا) تو اگر نماز پڑھانے والے کو قرآن کریم کےمعانی کا علم ہواور کسی مقام میں اس کے جان کر ایسا کرنے سے قرآنِ کریم کے مقصودی مفہوم میں تغیر پیدا ہوجائے، تب تو نماز فاسد ہوجائے گی،بصورتِ دیگرمعنی میں کثیر تبدیلی  پیدا ہونے کے باوجود بھی نماز فاسد نہ ہوگی،تاہم نماز پڑھانے والے کو چاہیے کہ قرآن کریم میں وقف کے جو مقامات مقرر کیے گئے ہیں،اُنہی پر وقف کرے اور اگر کبھی سانس کی کمی کے باعث اس کے علاوہ، وقف کرنا پڑ جائے تو وہیں سے آگے پڑھنا شروع نہ کردے بلکہ کچھ پیچھے سے پڑھنا شروع کرے تاکہ معنی میں حتیٰ الامکان تبدیلی و تغیر پیدا ہونے سے بچا جاسکے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ومنها الوقف والوصل والابتداء في غير موضعها إذا وقف في غير موضع الوقف أو ابتدأ في غير موضع الابتداء إن لم يتغير به المعنى تغيرا فاحشا... لا تفسد بالإجماع بين علمائنا هكذا في المحيط وكذا إن وصل في غير موضع الوصل ... لا تفسد لكنه قبيح هكذا في الخلاصة وإن تغير به المعنى تغيرا فاحشا ...لا تفسد صلاته عند عامة علمائنا وعند البعض تفسد صلاته والفتوى على عدم الفساد بكل حال."

(ص:81،ج:1،کتاب الصلوة،الفصل الخامس في زلة القارئ،ط:دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"ومنهم من قال إن كان لما ذكر من الشطر وجه صحيح في اللغة ولا يكون لغوا ولا يتغير به المعنى ينبغي أن لا يوجب فساد الصلاة وإن كان الشطر المقروء لا معنى له ويكون لغوا أو لم يكن لغوا ولكن يكون مغيرا للمعنى يوجب فساد الصلاة وعامة المشايخ على أنها لا تفسد؛ لأن هذا مما لا يمكن التحرز عنه فصار كالتنحنح المدفوع في الصلاة."

(ص:82،ج:1،کتاب الصلوة،الفصل الخامس في زلة القارئ،ط:دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما قطع بعض الكلمة عن بعض، فأفتى الحلواني بأنه مفسد. وعامتهم قالوا: لا يفسد لعموم البلوى في انقطاع النفس والنسيان. وعلى هذا لو فعله قصدا ينبغي أن يفسد، وبعضهم قالوا: إن كان ذكر الكلمة كلها مفسدا فذكر بعضها كذلك وإلا فلا. قال قاضي خان: وهو الصحيح والأولى الأخذ بهذا في العمد وبقول العامة في الضرورة ."

(ص:632،ج:1،کتاب الصلوۃ،‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها ،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"قوله أو بوقف وابتداء،قال في البزازية: الابتداء إن كان لا يغير المعنى تغييرا فاحشا لا يفسد، نحو الوقف على الشرط قبل الجزاء والابتداء بالجزاء، وكذا بين الصفة والموصوف؛ وإن غير المعنى  لا يفسد عند عامة المشايخ لأن العوام لا يميزون... والصحيح عدم الفساد في ذلك كله."

(ص:632،ج:1،کتاب الصلوۃ،‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها ،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409100771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں