بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں ایک طرف سلام پھیرنے کاحکم


سوال

 اگر کوئی نمازی نماز پڑھ کر ایک طرف سلام پھیر لے اور دوسری طرف نہ پھیرا ہو اور   کسی مجبوری سے اُٹھ جائے، تو کیا نماز ہوجائے گی؟ اگر ہاں تو دلیل سے بتا دیں ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص نماز کے آخر میں  ایک طرف سلا م پھیرے اور دوسری طرف سلام پھیرے بغیر اُٹھ جائے تو چوں کہ نماز کے آخر میں دونوں طرف سلام پھیر نا واجب ہے ،لہٰذا ایسی صورت میں مذکورہ شخص پر نماز کے وقت کے اند ر نماز کا اعادہ کرنا  واجب ہے، اور نماز کا وقت نکل جانے کے بعد اعادہ مستحب ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولفظ السلام) مرتين فالثاني واجب على الأصح برهان، دون عليكم.

(قوله: دون عليكم) فليس بواجب عندنا."

(كتاب الصلاة، واجبات الصلاة، ج:1،ص:468، ط:سعيد)

"مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح"  میں ہے؛

"و" يجب "لفظ السلام" مرتين في اليمين واليسار للمواظبة ولم يكن فرضا لحديث ابن مسعود "دون عليكم" لحصول المقصود بلفظ السلام دون متعلقه ويتجه الوجوب بالمواظبة عليه أيضًا."

(كتاب الصلاة، فصل في واجب الصلاة، ص: 95،ط: المكتبةالعصرية)

الموسوعة الفقهية الكويتية 

"وأقل ما يجزئ في لفظ السلام مرتين عند الحنفية " السلام " دون قوله " عليكم ". وأكمله وهو السنة أن يقول: " السلام عليكم ورحمة الله " مرتين."

(تسليم، التسليم للخروج من الصلاة، ج: 11، ص: 316، ط: دارالسلاسل)

"حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح"   میں ہے:

"كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب "

( كتاب الصلاة ،باب قضاء الفوات، ص: 440، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403101686

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں