بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں تعداد رکعت میں شک ہوجائے


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام؟ کہ وتر وں کی تیسری رکعت میں اکثر شک ہوجاتا ہے کہ دوسری رکعت ہے یا تیسری تو تصور کیا کہ دوسری ہے تو اب دعائے قنوت کس رکعت میں پڑھیں گے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل کو اکثر   اس طرح کاشک ہوتا رہتا ہےتووہ اپنےغالب گمان پر عمل کرے،اگر  غالب گمان یہ ہوکہ دو سری رکعت ہےتو ایک اور رکعت سا تھ ملا کر اس میں دعاءِ  قنوت پڑھے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے،اور اگر غالب گمان یہ ہو کہ یہ تیسری رکعت  ہےتو اسی رکعت میں دعاءِ  قنوت پڑھےاور آخر میں سجدہ سہوکرلے۔

اور اگر غالب گمان کسی طرف بھی نہ ہو تو کمی والی صورت کو ترجیح دے یعنی اگر دوسری اور تیسری  رکعت میں شک ہوجائے تو دوسری رکعت سمجھ کرایک اوررکعت ساتھ ملادے اوراسی میں دعاءِ قنوت پڑھےاور آخرمیں سجدہ سہوکرے۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن أبي هريرۃ رضي الله تعالي عنه أنّ النبيّ صلى الله عليه و سلّم قال: إنّ أحدكم إذا قام يصلي جاء الشيطان  فلبس عليه حتي لايدري كم صلي، فإذا وجد أحدكم  فليسجد سجدتين و هو جالس."

(باب السھو فى الفرض والتطوع)269 رقم1232ط: سلطانیة)

ترجمہ:تم میں سے جب کوئی نماز میں کھڑا ہوتاہے تو شیطان آکر اس کی نماز میں شبہ ڈالتا ہے،یہاں تک کہ اس کو یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں؟تو جب  تم میں سے کوئی اس طرح کا شبہ پائے تو بیٹھے بیٹھے دو سجدہ کرے (یعنی سہو کے دو سجدے)۔

(نصر البارى  4413 ط: مکتبہ الشیخ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و إذا شكّ) في صلاته (من لم يكن ذلك) أى الشك (عادة له) و قيل: من لم يشكّ في صلاة قطّ بعد بلوغه، و عليه اكثر المشايخ، بحر عن الخلاصة، (كم صلّى استأنف) بعمل مناف و بالسلام قاعدًا أولي؛ لأنّه المحل (و إن كثر ) شكّه (عمل بغالب ظنّه إن كان) له ظنّ للحرج (و إلا أخذ بالأقل)؛ لتيقنه."

(كتاب الصلاة ، 292، ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں