کیا نماز ادا کرتے وقت آنکھیں بند کر سکتےہیں؟ کچھ عرصہ پہلے کہیں لکھا ہوا تھا کہ نماز پڑھتے ہوئے قیام کی حالت میں زمین پہ دیکھنا چاہیے، رکوع کی حالت میں انگوٹھوں کو اور سجدے کی حالت میں ناک پہ، جب کہ مجھے آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنے کی عادت ہے یکسوئی کے لیے، برائے کرم راہنمائی فرمادیں۔
واضح رہے کہ نماز میں بلاضرورت آنکھیں بند کرنا خلافِ سنت اور مکروہِ تنزیہی ہے، فقہاءِ کرام رحمہم اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ نماز میں خشوع کے لیے قیام کی حالت میں نگاہ سجدہ کی جگہ پر، رکوع کی حالت میں پاؤں کی انگلیوں پر اور سجدہ کی حالت میں ناک کے بانسہ پر رکھنی چاہیے، البتہ اگر کسی کو اس طریقے پر خشوع حاصل نہ ہوتاہو اور آنکھیں بندکرنے سے خشوع حاصل ہوتاہو، تو اس کے لیے خشوع کی خاطر آنکھ بند کرکے نماز پڑھنے کی گنجائش ہوگی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آنکھیں کھلی رکھنے کی صورت میں خشوع حاصل نہیں ہوتا اور اس کے مقابلہ میں آنکھیں بند رکھنے کی صورت میں خشوع حاصل ہوتاہو، تو آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنے کی گنجائش ہوگی، لیکن اگر آنکھیں بند کرنے سے یقینی طورپر خشوع حاصل نہیں ہوتاہو، بلکہ آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنے کی عادت ہو، تو پھر اس طرح کرنا مکروہ اور خلافِ سنت ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولها آداب) تركه لا يوجب إساءة ولا عتابا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل (نظره إلى موضع سجوده حال قيامه، وإلى ظهر قدميه حال ركوعه وإلى أرنبة أنفه حال سجوده، وإلى حجره حال قعوده. وإلى منكبه الأيمن والأيسر عند التسليمة الأولى والثانية) لتحصيل الخشوع."
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج: 1، ص: 478،477، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتغميض عينيه) للنهي إلا لكمال الخشوع.
(قوله: للنهي) أي في حديث «إذا قام أحدكم في الصلاة فلا يغمض عينيه» رواه ابن عدي إلا أن في سنده من ضعف وعلل في البدائع بأن السنة أن يرمي ببصره إلى موضع سجوده، وفي التغميض تركها. ثم الظاهر أن الكراهة تنزيهية، كذا في الحلية والبحر، وكأنه لأن علة النهي ما مر عن البدائع، وهي الصارف له عن التحريم (قوله إلا لكمال الخشوع) بأن خاف فوت الخشوع بسبب رؤية ما يفرق الخاطر فلا يكره، بل قال بعض العلماء إنه الأولى، وليس ببعيد حلية وبحر."
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 645، ط: دار الفكر)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: و تغميض عينيه) لما رواه ابن عدي عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم «إذا قام أحدكم في الصلاة فلا يغمض عينيه» إلا أن في سنده من ضعف والكراهة مروية عن مجاهد وقتادة وعلله في البدائع بأن السنة أن يرمي بصره إلى موضع سجوده وفي التغميض ترك هذه السنة ولأن كل عضو وطرف ذو حظ من هذه العبادة فكذا العين اهـ... وينبغي أن تكون الكراهة تنزيهية إذا كان لغير ضرورة ولا مصلحة أما لو خاف فوات خشوع بسبب رؤية ما يفرق الخاطر فلا يكره غمضهما بسبب ذلك بل ربما يكون أولى لأنه حينئذ لكمال الخشوع."
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 2، ص: 27، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601100814
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن