نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ پڑھنے سے پہلے ''بسم اللہ الرحمٰن الرحیم'' پڑھنا کیسا ہے؟
نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے، جبکہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورت ملانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا اگرچہ مسنون نہیں ہے، لیکن فقہاء نے اس عمل کو مستحسن قرار دیا ہے۔ البتہ سورت کے درمیان سے قرأت شروع کی جائے تو بسم اللہ نہ پڑھنا بہتر ہے۔
مصنف ابن أبي شیبۃ میں ہے:
عن ابن عمر رضي اللہ عنہ أنہ کان إذا افتتح الصلاۃ قرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم، فإذا فرغ من الحمد قرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم
(المصنف لابن أبي شیبۃ، مؤسسۃ علوم القرآن، جدید ۳/ ۳۷۷، رقم: ۴۱۷۸، قدیم رقم: ۴۱۵۵، المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/ ۲۴۵، رقم: ۸۴۱)
فتاوی شامی میں ہے:
ولا تسن بین الفاتحۃ والسورۃ مطلقا ولو سریۃ، ولا تکرہ اتفاقا
(درمختار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، کراچی ۱/ ۴۹۰، زکریا ۲/ ۱۹۲)
حاشیتہ الطحطاوی میں ہے:
واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ، بل ہو أحسن، سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ
(حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننہا، دارالکتاب ۱/ ۲۶۰)
تاتار خانیہ میں ہے:
وروی عن أبي نصر عن محمد رحمہ ﷲ: أنہ یأتي بالتسمیۃ عند افتتاح کل رکعۃ، وعند افتتاح السورۃ أیضا، وفي الفتاوی الغیاثیۃ: وہو المختار
(الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث في کیفیۃ الصلاۃ، زکریا ۲/ ۱۶۶، رقم: ۲۰۳۵)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100765
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن