بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں بالوں کو باندھنے اور کپڑے سیمٹنے کاحکم


سوال

 کئی بار یہ مسئلہ نماز کے بارے میں سنا ہےکہ نماز میں کپڑا اور بالوں کو موڑنا منع ہے،اور صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث منقول ہے:"کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم ہوا کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کرو، اور بال اور کپڑا نہ موڑو"۔

یہ جہاں تک بال موڑنے کا تعلق ہے اس کے بارے میں عورتوں سے بھی سنا ہے کہ نماز میں بالوں کا گول موڑنا پیچھے سر کے اوپر یہ منع ہے،اور اس کے ساتھ نماز نہیں ہوتی تو عورتوں کیلئے تو بالوں کو کسی بھی طریقے سے موڑنا اس کو کسی بھی طریقے سے سنوارنا بغیر کٹائی کےاس میں تو شاید کوئی ممانعت نہیں ہوگی،یہ جو بال موڑنے کا حکم ہے آیا یہ مردوں کے لئے خاص ہے یا عورتیں بھی اس حکم میں شامل ہیں؟ اور یہ جو کپڑا موڑنے کا حکم ہے اگر کسی نے آستینیں اوپر کی طرف موڑی ہوئی ہوں یا پینٹ یا پاجاما نیچے سے مڑا ہوا ہو تو اس کو بھی کہتے ہیں کہ نماز میں کپڑا موڑنے سے نماز نہیں ہوتی؟ برائے مہربانی اسکے بارے میں میں مکمل رہنمائی فرما دیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں حدیث مبارکہ میں  نماز کے دوران سرکے بالوں کوباندھنے اور کپڑوں کو سیمٹنے سے ممانعت آئی ہے اور یہ حکم مردوعورتوں دونوں کے لیے یکساں ہے، پہلا حکم  عورتوں  کاسر کے اوپر کوہان نمابالوں کاجوڑا باندھنا ناجائز ہے،   اور ایسی عورتوں کو اہلِ نار میں شمار کیا گیا ہے  احادیث  مبارکہ میں اس طرح کوہان کی تشبیہ بھی موجود ہےباقی اگر کوئی عورت بالوں کو سیمٹ کر سرکے پچھلے حصے میں جوڑا باندھتی ہے جیساکہ عام طور پر عورتیں ایساکرتی ہیں تو وہ ناجائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی عورت اس طرح جوڑا باندھ کر نماز پڑھ لیتی ہے تو نماز ادا ہوجائے گی، اسی طرح نماز میں مردوں کے لیے جوڑا باندھنا مکروہ ہے۔

دوسرا حکم   حدیث شریف میں نماز کے دوران کپڑوں کے سمیٹنے سے منع کیا گیا ہے لیکن حدیث میں وارد ممانعت کا تعلق غیر ضروری طور پر یا مٹی سے بچنے کے لیے نماز کے دوران کپڑے سمیٹنے سے ہے،  نماز سے پہلے  یا نماز کے دوران ایک حکم شرعی کو ادا کرنے کے لیے (یعنی ٹخنوں کو کھلا رکھنے کے لیے ) کپڑے سمیٹنا اور موڑنا اس حدیث کے مفہوم میں داخل نہیں ہے، لہٰذا  اگر کسی کی شلوار یا پینٹ لمبی ہو تو نماز سے پہلے ہی اسے موڑ لینا چاہیے ،   البتہ دورانِ نماز جھک کر پینٹ یا شلوار وغیرہ پائنتی کی جانب  سے موڑلینا عمل کثیر ہے، جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌أمرت ‌أن ‌أسجد ‌على ‌سبعة أعظم، ولا أكف ثوبا ولا شعرا»."

(كتاب الصلاة،باب اعضاء السجود،ج:1،ص:354،الرقم:490،ط:دارإحياء التراث العربي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"‌ولا ‌نكفت "..أي: نهينا أن نضم ونجمع (الثياب) ، وقاية من التراب...أن التقدير: وأمرت أن لا نكفتهما بل نتركهما حتى يقعا على الأرض ليسجد بجميع الأعضاء والثياب، قال الطيبي: فبهذا الحديث قالوا: يكره عقص الشعر وعقده خلف القفا ورفع الثياب عند السجود، قال ابن حجر: يكره باتفاق العلماء تنزيها ضم شعره وثيابه في الصلاة، وإن لم يتعمد ذلك بأن كان قبل الصلاة لشغل، وصلى على حاله خلافا لمالك، ومن كفتهما أن يعقص الشعر أو يضمه تحت عمامته، وأن يشمر ثوبه أو يشد وسطه، أو يغرز عذبته، وحكمة النهي عن ذلك منعه من أن يسجد معه، بهذا قالوا، ومن حكمته أيضا منافاة ذلك للخشوع إن فعله في الصلاة أو لهيئة الخاشع إن لم يفعله فيها."

(كتاب الصلاة،باب السجود وفضله،ج:8،ص:718،ط:دارلفكر)

وفیہ ایضاً:

"قال النووي: الإسبال يكون في الإزار والقميص والعمامة، ولا يجوز الإسبال تحت الكعبين إن كان للخيلاء، وقد نص الشافعي على أن التحريم مخصوص بالخيلاء لدلالة ظواهر الأحاديث عليها، فإن كان للخيلاء فهو ممنوع منع تحريم، وإلا فمنع تنزيه، وأجمعوا على جواز الإسبال للنساء."

(كتاب اللباس،ج:7،ص:2767،ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وعقص شعره) للنهي عن كفه ولو بجمعه أو إدخال أطرافه في أصوله قبل الصلاة؛ أما فيها فيفسد.

(قوله: وعقص شعره إلخ) أي ضفره وفتله، والمراد به أن يجعله على هامته ويشده بصمغ، أو أن يلف ذوائبه حول رأسه كما يفعله النساء في بعض الأوقات، أو يجمع الشعر كله من قبل القفا ويشده بخيط أو خرقة كي لا يصيب الأرض إذا سجد؛ وجميع ذلك مكروه، ولما روى الطبراني «أنه عليه الصلاة والسلام نهى أن يصلي الرجل ورأسه معقوص»، وأخرج الستة عنه صلى الله عليه وسلم: «أمرت أن أسجد على سبعة أعضاء، وأن لا أكف شعرا ولا ثوبا» شرح المنية، ونقل في الحلية عن النووي أنها كراهة تنزيه، ثم قال: والأشبه بسياق الأحاديث أنها تحريم إلا إن ثبت على التنزيه إجماع فيتعين القول به."

(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیه،ج:1،ص:641،ط:سعید)

فقط اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں