بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں عورت کے سر کے بال نظر آرہے ہوں تو اس كا کیا حکم ہے؟


سوال

اگر نماز میں عورت کے سر کے بال نظر آرہے ہو تو کیا نماز ادا ہو جائے گی ؟ اگر عورت سر پر دوپٹہ کر کے نماز پڑھ رہی ہو لیکن سامنے کے کچھ بال نظر آرہے ہو تو ایسی صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

   عورت کے بال اَعضائے سَتْر میں سے ہیں، عورت پر ان کا پردہ فرض ہے اور اَعضائے سَتْر میں سے کوئی عُضو حالتِ نماز میں ظاہر ہو تو نماز درست ہونے یا نہ ہونے میں اس کی چوتھائی کا اِعتبار ہے۔لہٰذا چوتھائی سے کم بال کُھلے ہوئے ہوں تو نماز ہوجائے گی اور اگرچوتھائی یا اس سے زیادہ مِقدارمیں بال کُھلے ہوئے ہیں یا چادر، دوپٹہ باریک ہونے کی وجہ سے چوتھائی کی مِقدار بالوں کی رَنگت ظاہر ہورہی ہے  تو اس بِنا پر نماز نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں:

    (1)اگرعورت نے نماز ہی اس حالت میں شروع کی کہ اِس قَدر بال کھلے ہوئے تھے یا ان کی رَنگت ظاہر ہورہی تھی تو نماز شروع ہی نہیں ہوئی۔

    (2) اگر یہ حالت نماز شروع ہونے کے بعد پیدا ہوئی اورعورت نےاِسی حالت میں کوئی  رکن ادا کرلیا یا ایک رکن یعنی تین مرتبہ سُبحٰان اللہ کہنے کی مِقدار(دیر) گُزرگئی  تو نماز فاسد ہو گئی اور اگر ایک  رکن (یعنی تین مرتبہ سُبحٰان اللہ کہنے )کی مُدت گزرنے سے پہلے ہی بال چھپالئے تو نماز ہوگئی ۔

    یاد رہےکہ یہ تفصیل چوتھائی کی مِقدار بِلا قَصد(بغیر اِرادہ کے) کُھل جانے کی صورت میں ہے،اگرکوئی عورت قَصداً (جان بوجھ کر) حالتِ نماز میں چوتھائی کی مِقدار بال کُھول لے  تو فورا ًنماز فاسد ہوجائے گی اگرچہ ایک رُکْن کی مِقدار تاخیر نہ کی ہو۔

    تنبیہ:عورت کے اَعضائے سَتْر میں سَر اور سَر سے جوبال لٹک رہے ہوتے ہیں یہ دو الگ الگ عُضو کی حَیثِیّت رکھتے ہیں۔  سَر کی تعریف یہ ہے کہ پیشانی سے اوپر جہاں سے عادۃً بال اُگنا شروع ہوتے ہیں وہاں سے لیکر گردن کی شُروع تک طُول میں اور ایک کان سے دوسرے کان تک عَرض میں(یعنی عادۃً جہاں بال اُگتے ہیں)یہ سَر ہے،لِہٰذا اگر نظر آنے والے بال سَر کی حد میں ہوں مثلاً پیشانی کی جانِب سے بال نظر آرہے ہوں تو اس میں سَر کی چوتھائی کا لِحاظ ہوگا اور اگرسَر سے لٹکنے والے بالوں میں سے کچھ ظاہر ہوں تو صرف ان  لٹکنے والے بالوں کی چوتھائی دیکھی جائے گی۔

"مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي"میں ہے:

"فشعر الحرة حتی المسترسل عورة فی الأصح وعلیه الفتوی فکشف ربعه یمنع صحة الصلاة الخ."

(مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، ص : 241، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

الدرمع الرد میں ہے:

"(وللحرة) ولو خنثى (جميع بدنها) حتى شعرها النازل في الأصح."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ج:1، ص:406، ط:سعید)

بہشتی زیور میں ہے:

"نماز میں ۔۔۔عورت کا چہرہ اور دونوں  ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں کے سوا باقی تمام بدن ستر ہے۔"

(نماز کی شرطوں کا بیان، ج:1، ص:135، ط:مجلس نشریات اسلام)

عمدۃ الفقہ میں ہے:

"آزاد عورت(یعنی جو باندی نہ ہو)کا چہرہ(منہ) اور دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے سوا تمام بدن ستر ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، ج:2، ص:53، ط:زوار اکیڈمی)

فتاوی فریدیہ میں ہے:

"ماسوائے وجہ وقدمین وکفین ہر اندام مکمل یا ربع وے کہ برہنہ شود، نمازش فاسد شود۔"

(کتاب الصلاہ، باب شروط الصلاہ، ج:2، ص:220،ط:دار العلوم صدیقیہ زروبی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505101330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں