اگر کسی مسبوق نے امام کے ساتھ فرض نماز کی دوسری، تیسری اور چوتھی رکعت ادا کی، پھر اپنی چھوٹی ہوئی ایک رکعت پوری کرنے کے لیے کھڑا ہوا، اور کھڑے ہوکر زبان سے "چار رکعت نماز" کی نیت کے الفاظ زبان سے کہے، اس کے بعد ثنا پڑھ کر سورۂ فاتحہ شروع کی، یوں اس نے چوتھی رکعت ادا کرلی تو کیا نیت کے الفاظ زبان سے کہنے کی وجہ سے سجدۂ سہو لازم ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مسبوق نے نماز کے دوران امام سے جدا ہونے کے بعد اپنی بقیہ رکعت کی ادائیگی کے لیے نیت کے الفاظ زبان سےادا کیے ہیں، اس لیے اس کے اس عمل کی وجہ اس کی نماز فاسد ہوگئی ، کیوں کہ نماز کے دوران ایسا کرنانماز کے منافی عمل ہے، لہذا ایسی صورت میں صرف سجدۂ سہو کرنا کافی نہیں، بلکہ نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا تكلم في صلاته ناسيا أو عامدا خاطئا أو قاصدا قليلا أو كثيرا تكلم لإصلاح صلاته بأن قام الإمام في موضع القعود فقال له المقتدي اقعد أو قعد في موضع القيام فقال له قم أو لا لإصلاح صلاته ويكون الكلام من كلام الناس استقبل الصلاة عندنا. كذا في المحيط هذا إذا تكلم قبل أن يقعد قدر التشهد. هكذا في فتاوى قاضي خان وهذا إذا تكلم على وجه يسمع منه فأما إذا تكلم على وجه لا يسمع منه إن كان بحيث يسمع نفسه تفسد صلاته. كذا في المحيط وإن لم يسمع وصحح الحروف لا تفسد. كذا في الزاهدي."
(كتاب الصلاة، الباب السابع فيما يُفسد الصلاة، ج:1، ص:98، ط:: دار الفكر، بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(يفسدها التكلم) هو النطق بحرفين أو حرف مفهم: كع وق أمرا ولو استعطف كلبا أو هرة أو ساق حمارا لا تفسد لأنه صوت لا هجاء له (عمده وسهوه قبل قعوده قدر التشهد سيان) وسواء كان ناسيا أو نائما أو جاهلا أو مخطئا أو مكرها هو المختار."
(کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ، ج:1، ص:615، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144612100067
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن