بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں وسوسہ آنے پر تعوذ اور تھوکنے کا حکم


سوال

نماز میں شیطانی وسوسے آئے تو اعوذ باللہ پڑھ کر بائیں طرف تھوك سكتے ہیں؟ یہ عمل تو (قوموا  لله  قانتین)کے خلاف معلوم ہوتا ہے!

جواب

نماز میں وسوسہ دور کرنے کے لیے ’’أعوذ بالله‘‘ زبان  سے نہیں پڑھنی چاہیے،  بلکہ  دل ہی دل میں وسوسہ دور کرنے کے لیے پڑھ لی جائے، لیکن اگر وسوسہ دور کرنے کے لیے زبان سے پڑھ لی تو نماز فاسد نہ ہوگی، اسی طرح تھوکنا بھی نہیں چاہیے، اگر اس طرح تھوکا کہ دیکھنے والوں کو گمان ہوا کہ یہ نماز میں نہیں ہے تو یہ عمل کثیر ہوجائے گا جس سے نماز فاسد ہوجائے گی، جہاں تک حدیث میں اس کا ذکر ہے تو اس کی تفصیل یہ  ہے کہ حدیثِ مبار ک میں ہے:

حضرت عثمان بن ابوالعاص  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! شیطان میری نماز اور قرأت کے درمیان حائل ہوتا اور مجھ پر نماز میں شبہ ڈالتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شیطان ہے جسے ’’خنزب‘‘  کہا جاتا ہے، جب تو ایسی بات محسوس کرے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کر اور اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دیا کر، پس میں نے ایسے ہی کیا تو شیطان مجھ سے دور ہوگیا۔
صحيح مسلم (4/ 1728):

’’أن عثمان بن أبي العاص، أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إن الشيطان قد حال بيني وبين صلاتي وقراءتي يلبسها علي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ذاك شيطان يقال له خنزب، فإذا أحسسته فتعوذ بالله منه، واتفل على يسارك ثلاثاً» قال: ففعلت ذلك فأذهبه الله عني‘‘.

اس حدیث  کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  اس حدیث کا تعلق اس وسوسہ سے ہے جو نماز شروع کرنے سے پہلے ہوتا ہو، لہذا جس شخص نے نماز شروع نہیں کی  اس کو اگر وسوسہ آجائے تو وہ  تعوذ پرھ کر بائیں طرف تین بار تھتکار دے۔ 

دوسری توجیہ اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ  یہ حکم اس وقت تھا جب نماز میں باتیں کرنا جائز تھا، پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔

تیسری توجیہ شراحِ حدیث نے یہ ذکر کی ہے کہ یہ حکم اس  نمازی کو ہے جو نماز سے فارغ ہوچکا ہو، یعنی نماز سے فارغ ہوکر یہ عمل کرلے کہ شیطان سے بدلہ ہوجائے اور آئندہ نماز میں تنگ نہ کرے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 146):

’’(«قال: قلت: يا رسول الله! إن الشيطان قد حال بيني، وبين صلاتي، وبين قراءتي» ) أي: يمنعني من الدخول في الصلاة، أو من الشروع في القراءة بدليل تثليث التفل، وإن كان في الصلاة، وليتفل ثلاث مرات غير متواليات، ويمكن حمل التفل والتعوذ على ما بعد الصلاة، والمعنى جعل بيني وبين كمالهما حاجزاً من وسوسته المانعة من روح العبادة، وسرها، وهو الخشوع والخضوع‘‘. 

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’"نماز میں  وسوسہ دفع کرنے کے لیے بار بار أعوذ بالله ... الخ پڑھنے کی ہدایت صحیح نہیں  ہے۔ اگر چہ نماز فاسد ہونے میں  فقہاء  کااتفاق نہیں  ہے، مگر کراہت سے خالی نہیں۔ ’’ولو حوقل لدفع الوسوسة، إن لأمور الدنیا تفسد، لا لأمور الاٰ خرة‘‘.(درمختار ج۱ ص ۵۸۱ باب ما یفسد الصلاة وما یکره فیها) (یعنی اگر نماز ی نے لاحول ولا قوة ... الخ پڑھا تو اگر دنیوی امور کے لیے وسوسہ ہے تو نماز فاسد ہوگی اور اگر امورِ آخرت کے لیےہے تو نماز فاسد نہ ہوگی) ’’ولو تعوذ لد فع الوسوسة لاتفسد مطلقاً (إلی قوله:) ولو تعوّذ لدفع الوسوسة لاتفسد مطلقاً نظر؛ إذ لا فرق بینها وبین الحوقلة، فلیتا مل‘‘. (طحطاوي علی الدر المختار ج۱ ص ۴۱۶ باب ما یفسد الصلاة ویکرہ فیها )‘‘۔

(فتاوی رحیمیہ 5/'126)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں