بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں واجب الاعادہ ہونے کا معنی


سوال

  1. نماز میں اگر واجب چھوٹ جائے بھولے سے تو سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے ۔اور اگر سجدہ سہو نہ کیا تو نماز واجب الاعادہ ہوتی ہے ۔اور جان بوجھ کر چھوڑ دیا جائے تو بھی نماز واجب الاعادہ ہوتی ہے ۔اس طرح سے نماز میں فرض چھوڑنے سے بھی نماز واجب الاعادہ ہوتی ہے تو آیا اب ان تینوں واجب الاعادہ میں نمازوں میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟
  2. ان تینوں واجب الاعادہ نماز میں کوئی اور مقتدی جو پہلے شریک نہیں تھا وہ ان نمازوں میں شریک ہو سکتا ہے یا نہیں؟
  3. مذکورہ تین صورتوں میں کن صورتوں میں نماز فاسد ہوتی ہے اور کن صورتوں  میں نہیں؟
  4. کن صورتوں میں نماز وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوتی ہے اور وقت نکلنے کے بعد واجب الاعادہ نہیں ہوتی۔

جواب

  1. اگر کسی شخص نے نماز پڑھی اور  نماز میں کوئی واجب رہ گیا اور سجدہ سہو بھی نہیں کیا  تو وقت کے اندراس نماز کا اعادہ واجب ہو گا اور اس نماز کا وقت کے گزر جانے کے بعد وجوب اعادہ ساقط ہو جائے گا،البتہ توبہ و استغفار لازم ہو گا اور اس نماز کا اعادہ کرنا مستحب ہو گا،  نیزلوٹائی جانے والی نماز فرض ہی کی نیت سے ادا کی جائے گی، نہ کہ نفل کی نیت سے۔ اور اگركوئي  فرض، نماز ميں  ره جائے   تو اس کا حکم یہ ہے کہ  نماز کا دہرانا  ہر حال میں فرض ہے۔اور اگر کوئی   واجب جان بوجھ كر چھوڑ ديا تو  اس كا حكم يه هے كه اس كا دهرانا وقت ميں  اور وقت کے بعد  دونوں صوررتوں  واجب هے۔
  2.  اگر فرض نماز  کسی فرض کے چھوٹ جانے کی وجہ سے دوبارہ ادا کی جارہی ہو تو اس میں نئے آنے والے نمازیوں کی شرکت درست ہوتی ہے ، البتہ  اگر پہلی نماز ترکِ واجب کی وجہ سے دوہرائی جارہی ہو تو اس صورت میں چوں کہ فرض نقصان کے ساتھ  ذمہ سے ساقط ہوچکا ہوتا ہے، اور اس ترکِ واجب کے نقصان کے ازالہ کے لیے نماز دہرائی جا رہی ہوتی ہے ؛ اس لیے اس نماز میں نئے آنے والے نمازی کی شرکت درست نہیں ہوتی۔
  3. مذكوره تينوں  صورتوں ميں نماز كے فساد كے اعتبار سے حکم یہ ہے کہ فرض رہ جانے کی وجہ سے تو نماز فاسد ہو جائے گی، البتہ بھول سے واجب  رہ   جانے کی صورت میں  اگر کوئی آخر میں سجدہ سہو نہ کرے تو  نماز فاسد نہ ہوگی۔ لیکن واجب جان بوجھ کر چھوڑ دینے کی صورت میں واجب الاعادہ  ہے۔
  4. كسي بھي صورت ميں اگر سجدہ سہو واجب ہو یا نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوئی ہو ا  ٓخر میں سجدہ سہو نہ کرے تو اس نماز کا وقت کے اندر اعادہ واجب ہے، وقت گزرنے کے بعد اس کو لوٹانے کی تاکید کم ہے، تاہم لوٹا  لینا چاہیے، تاکہ نماز کسی کمی کوتاہی کے بغیر صحیح ادا ہوجائے۔ اور اگر کوئی فرض نماز میں رہ جائے تو اعادہ ہر حال میں فرض ہےاور اگر  واجب جان بوجھ کر چھوڑ دیا تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ نماز ہی نہیں ہوئی  اس کا دہرانا وقت میں یا بعد میں  دونوں صورتوں میں واجب ہے۔

  5. حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

"والمختار أن المعادة؛ لترك واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لا يتكرر، كما في الدر وغيره". (١/ ٢٤٨،ط:دار الكتب العلمية بيروت)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح :

"وإعادتها بتركه عمداً" أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها حتى  خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم، ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر، كما في الدر وغيره. ويندب إعادتها لترك السنة". (ص: 247،ط:دار الكتب العلمية بيروت)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 440، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

"كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب ".

فتاوی شامی میں ہے:

"[تنبيه] يؤخذ من لفظ الإعادة ومن تعريفها بما مر أنه ينوي بالثانية الفرض؛ لأن ما فعل أولاً هو الفرض فإعادته فعله ثانياً؛ أما على القول بأن الفرض يسقط بالثانية فظاهر؛ وأما على القول الآخر فلأن المقصود من تكريرها ثانياً جبر نقصان الأولى، فالأولى فرض ناقص، والثانية فرض كامل مثل الأولى ذاتاً مع زيادة وصف الكمال، ولو كانت الثانية نفلاً لزم أن تجب القراءة في ركعاتها الأربع، وأن لا تشرع الجماعة فيها ولم يذكروه، ولا يلزم من كونها فرضاً عدم سقوط الفرض بالأولى؛ لأن المراد أنها تكون فرضاً بعد الوقوع، أما قبله فالفرض هو الأولى". (2/ 65) ط: سعید

و فیہ ایضا:

(ولها واجبات) لا تفسد بتركها وتعاد وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها يكون فاسقا.  رد المحتار ط الحلبي (1/ 456)

و فیہ ایضا:

فيجوز بناء النفل على النفل وعلى الفرض وإن كره. 

(قوله وإن كره) يعني أنه مع صحته مكروه لأن فيه تأخير السلام وعدم كون النفل بتحريمة مبتدأة. رد المحتار ط: الحلبي (1/ 442)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100315

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں