بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رجب 1446ھ 19 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

نماز میں ثناء نہیں پڑھی / نماز کے اختتام پر سلام علیکم کہنا / امام کو لقمہ کون دے سکتا ہے؟ / امام کے تاخیر سے آنے کی صورت میں کسی اور کو امامت بنانا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ:

1۔ اگر امام ثناء نہ پڑھے تو نماز میں نقصان آتا ہے یا نہیں؟

2۔  امام یا غیر امام سلام علیکم کہے گا یا السلام علیکم کہے گا؟

3۔ کیا حافظ کو لقمہ  حافظ ہی دے سکتا ہے یا اگر حافظ نہ دے سکے تو غیر حافظ بھی لقمہ دے سکتا ہے؟

4۔ اگر امام وقت پر نہ پہنچ سکے تو پانچ منٹ انتظار کرنا ضروری ہے یا کوئی اور آگے بڑھ کر امامت کرا سکتا  ہے ؟

جواب

1۔ تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء پڑھنا مسنون ہے، فرض یا واجب نہیں،  لہذا اگر کسی نے تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء نہیں پڑھی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اور نہ ہی سجدہ سہو لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(سننها) رفع اليدين للتحريمة، ونشر أصابعه، وجهر الإمام بالتكبير، والثناء، والتعوذ، والتسمية، والتأمين سرا."

(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها،  ١ / ٧٢، ط: دار الفكر)

2۔ نماز کے اختتام پر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنا مسنون ہے، سلام عليكم  کہنا خلافِ  سنت  و مکروہ ہے، تاہم سلام عليكم کہنے سے بھی نماز مکمل ہوجائے گی۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"(قائلا السلام عليكم ورحمة الله) هو السنة

(قوله هو السنة) قال في البحر: وهو على وجه الأكمل أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله مرتين، فإن قال السلام عليكم أو السلام أو سلام عليكم أو عليكم السلام أجزأه وكان تاركا للسنة، وصرح في السراج بكراهة الأخير. اهـ. قلت: تصريحه بذلك لا ينافي كراهة غيره أيضا مما خالف السنة."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ١ / ٥٢٦، ط: دار الفكر)

3۔ ضرورت  پڑنے پر امام کو لقمہ  دینا جائز ہے، لقمہ دینے والے کا حافظ ہونا لازم نہیں، البتہ جماعت  میں شامل ہونا شرعًا ضروری  ہے۔

البحر الرائق شرح كنز  الدقائق میں ہے:

"الحاصل: أن الصحيح من المذهب أن الفتح على إمامه لا يوجب فساد صلاة أحد لا الفاتح و لا الآخذ مطلقاً في كل حال".

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ٢/ ٦، ط: سعيد)

4۔ گھڑی کے مطابق نمازوں کے اوقات کا تعین لوگوں کی سہولت کے لیے ہے، یہ شرعی معیار نہیں ہے،  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نمازوں کے مستحب اوقات میں جب لوگ جمع ہوجاتے تھے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لایا کرتے تھے، لہٰذا اگر  کبھی بتقاضۂ  بشریت امام سے  معمولی تاخیر ہوجائے تو مقتدیوں کو بے صبری اور شور شرابے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لینا  چاہیے، اور   وقت ہوتے  ہی فوراً کھڑے ہو جانا   درست نہیں، اسی طرح کسی اور کو امامت کے لیے آگے بڑھانا بھی درست نہیں،تاہم اگر کسی وجہ سے امام کو حاضر ہونے میں تاخیر ہو رہی ہو، تو اسے چاہیے  کہ مؤذن کو آگاہ کردے۔

الدين الخالص للسبكي میں ہے:

"(الخامس) أن فيه افتياتا وطعنا فى حق الإمام الراتب، وقد حث الأئمة خصوصا الشافعية والحنبلية على حفظ حق الإمام الراتب ولو غائبا ولم يرخصوا لغيره فى إقامة الجماعة فى غيبته إلا لعذر كاليأس من حضوره وخوف فوات الوقت (قال النووى): قال الشافعى: إذا حضرت الجماعة ولم يحضر إمام، فإن لم يكن للمسجد راتب صلى بهم أحدهم. وإن كان له إمام راتب فإن كان قريبا بعثوا إليه ليحضر أو يأذن لمن يصلى بهم. وإن كان بعيدا أو لم يوجد فى موضعه فإن عرفوا من حسن خلقه أنه لا يتأذى بتقديم غيره ولا تحصل بسببه فتنة، استحب أن يصلى بهم أولاهم بالإمامة وأحبهم إلى الإمام. وإن خافوا أذاه أو فتنة، انتظروه إن لم يخافوا فوات الوقت، وإلا صلوا جماعة."

(الثاني: الجماعة، ٣ / ١١٧ - ١١٨، ط: المكتبة المحمودية السبكية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144512100931

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں