ایک امام صاحب نے فجر کی نماز میں چند روز قبل قراءت میں یہ غلطی کی کہ اس آیت : "وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَإِنَّ حِزۡبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلۡغَٰلِبُونَ. [المائدة: 56]" میں "ٱلۡغَٰلِبُونَ"کی جگہ "الخاسرون" پڑھا، نماز کے بعد جب میں نے مفتی صاحب سے نماز کے اعادہ سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ : ”امداد الفتاوی“ کے حاشیہ میں یہ بات ذکر ہے کہ عجمیوں کے لیے حرج کی وجہ سے ترکِ اعادہ کا قول بھی مذکور ہے، لہذا اعادہ کی ضرورت نہیں۔
پوچھنا یہ ہے کہ اس قول پر عمل کرنا درست ہے؟ دوم یہ ہے کہ عجمیوں میں وہ امام بھی داخل ہوگا جو کہ قرآن کے معنی کو سمجھتا ہو یا یہ کہ ہر عالم وغیر عالم؟ سوم یہ کہ اگر اعادہ ہے تو اب اس کی کیا صورت ہوگی؟
نماز ميں قراءت كی غلطيوں كی مختلف صورتيں ہيں،ان میں سے ایک صورت ”تبدیل کلمہ “ (ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ پڑھ لینا) بھی ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس سے معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اور غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) اور اسی رکعت میں اس کی اصلاح بھی نہ کی ہو تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ البتہ بعض غلطیاں اعراب کی غلطیوں کے قبیل سے ہوتی ہیں ، اگر اس میں معنی میں تغیر فاحش ہوجائے تب بھی متاخرین ؒ توسّع دیتے ہیں اور نماز کے فاسد نہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں، اس لیے کہ لوگ خصوصا اہل عجم اعراب میں فرق نہیں کرپاتے، تاہم اس میں بھی متقدمین کا قول احوط ہے؛ اس لیے ایسی صورت میں بھی نماز کا اعادہ کرلینا چاہیے۔
لہذاصورت ِ مسئولہ میں مذکورہ امام صاحب نے جب فجر کی نماز میں قراءت کرتے ہوئے اس آیت "وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَإِنَّ حِزۡبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلۡغَٰلِبُونَ. [المائدة: 56]" میں "الغالبون" کی جگہ "الخاسرون" پڑھ لیا اور "الخاسرون"سے پہلے وقف تام نہیں کیا تھا اور نہ ہی اسی رکعت میں اس غلطی کی اصلاح کی تو ایسی صورت میں نماز فاسد ہوگئی، اس نماز کا اعادہ لازم ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(ومنها) ذكر كلمة مكان كلمة على وجه البدل إن كانت الكلمة التي قرأها مكان كلمة يقرب معناها وهي في القرآن لا تفسد صلاته نحو إن قرأ مكان العليم الحكيم وإن لم تكن تلك الكلمة في القرآن لكن يقرب معناها عن أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا تفسد وعن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - تفسد نحو إن قرأ التيابين مكان التوابين وإن لم تكن تلك الكلمة في القرآن ولا تتقاربان في المعنى تفسد صلاته بلا خلاف إذا لم تكن تلك الكلمة تسبيحا ولا تحميدا ولا ذكرا وإن كان في القرآن ولكن لا تتقاربان في المعنى نحو إن قرأ وعدا علينا إنا كنا غافلين مكان فاعلين ونحوه مما لو اعتقده يكفر تفسد عند عامة مشايخنا وهو الصحيح من مذهب أبي يوسف - رحمه الله تعالى -. هكذا في الخلاصة."
(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الخامس في زلة القارئ، ج:1،ص:80، ط:رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"كما لو بدل كلمة بكلمة وغير المعنى نحو: إن الفجار لفي جنات؛ وتمامه في المطولات.
(قوله: كما لو بدل إلخ) هذا على أربعة أوجه لأن الكلمة التي أتى بها، إما أن تغير المعنى أو لا، وعلى كل فإما أن تكون في القرآن أو لا، فإن غيرت أفسدت لكن اتفاقا في نحو فلعنة الله على الموحدين وعلى الصحيح في مثال الشارح لوجوده في القرآن، وقيد الفساد في الفتح وغيره بما إذا لم يقف وقفا تاما، أما لو وقف ثم قال - لفي جنات - فلا تفسد، وإذا لم تغير لا تفسد، لكن اتفاقا في نحو الرحمن الكريم، وخلافا للثاني في نحو إن المتقين لفي بساتين على ما مر، ومن هذا النوع تغيير النسب نحو مريم ابنة غيلان فتفسد اتفاقا، وكذا عيسى بن لقمان لأن تعمده كفر؛ بخلاف موسى بن لقمان كما في الفتح والله تعالى أعلم."
(کتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:633، ط:سعيد)
وفیہ أیضاً:
"ومنها زلة القارئ فلو في إعراب أو تخفيف مشدد وعكسه، أو بزيادة حرف فأكثر نحو الصراط الذين، أو بوصل حرف بكلمة نحو إياك نعبد، أو بوقف وابتداء لم تفسد وإن غير المعنى به يفتى بزازية.
وفي الرد: فنقول: إن الخطأ إما في الإعراب أي الحركات والسكون ويدخل فيه تخفيف المشدد وقصر الممدود وعكسهما أو في الحروف بوضع حرف مكان آخر، أو زيادته أو نقصه أو تقديمه أو تأخيره أو في الكلمات أو في الجمل كذلك أو في الوقف ومقابله. والقاعدة عند المتقدمين أن ما غير المعنى تغييرا يكون اعتقاده كفرا يفسد في جميع ذلك، سواء كان في القرآن أو لا إلا ما كان من تبديل الجمل مفصولا بوقف تام وإن لم يكن التغيير كذلك، فإن لم يكن مثله في القرآن والمعنى بعيد متغير تغيرا فاحشا يفسد أيضا كهذا الغبار مكان هذا الغراب.
وكذا إذا لم يكن مثله في القرآن ولا معنى له كالسرائل باللام مكان السرائر، وإن كان مثله في القرآن والمعنى بعيد ولم يكن متغيرا فاحشا تفسد أيضا عند أبي حنيفة ومحمد، وهو الأحوط. وقال بعض المشايخ: لا تفسد لعموم البلوى، وهو قول أبي يوسف وإن لم يكن مثله في القرآن ولكن لم يتغير به المعنى نحو قيامين مكان قوامين فالخلاف على العكس فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغير المعنى كثيرا وجود المثل في القرآن عنده والموافقة في المعنى عندهما، فهذه قواعد الأئمة المتقدمين. وأما المتأخرون كابن مقاتل وابن سلام وإسماعيل الزاهد وأبي بكر البلخي والهندواني وابن الفضل والحلواني، فاتفقوا على أن الخطأ في الإعراب لا يفسد مطلقا ولو اعتقاده كفرا لأن أكثر الناس لا يميزون بين وجوه الإعراب. قال قاضي خان: وما قال المتأخرون أوسع، وما قاله المتقدمون أحوط."
(کتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة...الخ، ج:1، ص:630،، ط:سعید)
امداد الفتاوی میں ہے:
” تتبع روایات فقہیہ سے معلوم ہوتاہے کہ ’’زلۃالقاری‘‘ کے چنداقسام ہیں اور اکثر اقسام میں روایات توسع کی موجود چنانچہ وہ اقسام یہ ہیں : (1) خطا فی الاعراب۔ (2) ابدال حرف بحرف۔ (3) تخفیف مشدد۔ (4) تشدید مخفف۔ (5) زیادۃ حرف۔ (6) نقص حرف۔ (7) فصل حرف بکلمۃ۔ (8) قطع بعض الکلمۃعن بعض۔ (9) وقف وابتداء۔ (10) ترک مد۔ (11)زیادت کلمہ۔ (12) نقص کلمۃ۔ (13) تقدیم۔ (14) تکرار کلمہ۔ (15) تبدیل کلمہ، اورروایات یہ ہیں :... ان روایات سے معلوم ہواکہ بجز زیادت ونقص حرف یاکلمہ یاتقدیم یاتبدیل کلمہ کے جبکہ یہ سب مغیرمعنی ہوں ۔اورجمیع اقسام میں اقوال توسع کے پائے جاتے ہیں ...الخ.“
(کتاب الصلاة، باب القاری، ج:1، ص:211، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604101652
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن