بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں مسلسل ڈاڑھی سے کھیلنا


سوال

 ایک شخص امامت کے دورانِ قیام اور التحیات میں مسلسل داڑھی اٹھا کر منہ میں ڈالتے اور نکالتے رہتے ہیں،  اور یہ عمل تین مرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘  کہنے کی مقدار نہیں، بلکہ پوری سورۂ  فاتحہ اور سورت  پڑھنے کی مقدار تک کرتے رہتے ہیں، جب رکوع کرنا ہوتا ہے پھر منہ سے ہاتھ ہٹاتے ہیں۔ اسی طرح دوسری رکعت میں اور اسی طرح تیسری اور چوتھی رکعت میں عام طور پر معمول ہے۔  اور التحیات میں بیٹھتے ہی داڑھی کو  پکڑ لیتے ہیں اور ہلاتے جلاتے رہتے ہیں ۔اور "ربنا ظلمنا انفسنا"  تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے.

1_ ان کی نماز کا کیا حکم ہے؟

2-اور ان کی جماعت کرانے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ نماز نہایت خشوع  و خضوع  اور حضورِ قلب کے ساتھ پڑھنی چاہیے،  نماز میں بلاضرورت ڈاڑھی پرہاتھ پھیرتے رہنا مکروہِ تحریمی ہے، لہذا اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیے، نماز میں مسلسل ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے رہنا عملِ کثیر ہے، جس کی وجہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

بصدقِ واقعہ صورتِ مسئولہ میں نماز میں مسلسل ڈاڑھی سے کھیلتے رہنے سے نماز فاسد ہوجائے گی، اور ایسا شخص اگر امام ہو تو مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی،  لہذا  مذکورہ شخص  کو مسئلہ سے آگاہ کیا جائے، البتہ دعوت و اِصلاح کے بنیادی آداب میں سے حکمت ہے، لہٰذا مسئلہ بتانے اور اِصلاح کے لیے نرمی و حکمت کی راہ اختیار کی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لِأَنَّ مَبْنَى الصَّلَاةِ عَلَى الْخُشُوعِ. اهـ.

قُلْت: وَاخْتُلِفَ فِي أَنَّ الْخُشُوعَ مِنْ أَفْعَالِ الْقَلْبِ كَالْخَوْفِ أَوْ مِنْ أَفْعَالِ الْجَوَارِحِ كَالسُّكُونِ أَوْ مَجْمُوعِهِمَا قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: وَالْأَشْبَهُ الْأَوَّلُ، وَقَدْ حُكِيَ إجْمَاعُ الْعَارِفِينَ عَلَيْهِ وَأَنَّ مِنْ لَوَازِمِهِ: ظُهُورَ الذُّلِّ، وَغَضَّ الطَّرْفِ، وَخَفْضَ الصَّوْتِ، وَسُكُونَ الْأَطْرَافِ، وَحِينَئِذٍ فَلَا يَبْعُدُ الْقَوْلُ بِحُسْنِ كَشْفِهِ إذَا كَانَ نَاشِئًا عَنْ تَحْقِيقِ الْخُشُوعِ بِالْقَلْبِ". ( كتاب الصلاة، بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّلَاةَ وَمَا يُكْرَهُ فِيهَا، مَطْلَبٌ فِي الْخُشُوعِ، ١ / ٦٤١، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يُكْرَهُ لِلْمُصَلِّي أَنْ يَعْبَثَ بِثَوْبِهِ أَوْ لِحْيَتِهِ أَوْ جَسَدِهِ وَأَنْ يَكُفَّ ثَوْبَهُ بِأَنْ يَرْفَعَ ثَوْبَهُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ أَوْ مِنْ خَلْفِهِ إذَا أَرَادَ السُّجُودَ، كَذَا فِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ". ( (الْبَابُ السَّابِعُ فِيمَا يُفْسِدُ الصَّلَاةَ وَمَا يُكْرَهُ فِيهَا، الْفَصْلُ الثَّانِي فِيمَا يُكْرَهُ فِي الصَّلَاةِ وَمَا لَا يُكْرَهُ، ١ / ١٠٥، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الْعَمَلُ الْكَثِيرُ يُفْسِدُ الصَّلَاةَ وَالْقَلِيلُ لَا. كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ وَاخْتَلَفُوا فِي الْفَاصِلِ بَيْنَهُمَا عَلَى ثَلَاثَةِ أَقْوَالٍ:

(الْأَوَّلُ) أَنَّ مَا يُقَامُ بِالْيَدَيْنِ عَادَةً كَثِيرٌ وَإِنْ فَعَلَهُ بِيَدٍ وَاحِدَةٍ كَالتَّعَمُّمِ وَلُبْسِ الْقَمِيصِ وَشَدِّ السَّرَاوِيلِ وَالرَّمْيِ عَنْ الْقَوْسِ وَمَا يُقَامُ بِيَدٍ وَاحِدَةٍ قَلِيلٌ وَإِنْ فُعِلَ بِيَدَيْنِ كَنَزْعِ الْقَمِيصِ وَحَلِّ السَّرَاوِيلِ وَلُبْسِ الْقَلَنْسُوَةِ وَنَزْعِهَا وَنَزْعِ اللِّجَامِ، هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ. وَكُلُّ مَا يُقَامُ بِيَدٍ وَاحِدَةٍ فَهُوَ يَسِيرٌ مَا لَمْ يَتَكَرَّرْ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.

(وَالثَّانِي) أَنْ يُفَوَّضَ إلَى رَأْيِ الْمُبْتَلَى بِهِ وَهُوَ الْمُصَلِّي فَإِنْ اسْتَكْثَرَهُ كَانَ كَثِيرًا وَإِنْ اسْتَقَلَّهُ كَانَ قَلِيلًا وَهَذَا أَقْرَبُ الْأَقْوَالِ إلَى رَأْيِ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -.

(وَالثَّالِثُ) أَنَّهُ لَوْ نَظَرَ إلَيْهِ نَاظِرٌ مِنْ بَعِيدٍ إنْ كَانَ لَا يَشُكُّ أَنَّهُ فِي غَيْرِ الصَّلَاةِ فَهُوَ كَثِيرٌ مُفْسِدٌ وَإِنْ شَكَّ فَلَيْسَ بِمُفْسِدٍ وَهَذَا هُوَ الْأَصَحُّ، هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ. وَهُوَ أَحْسَنُ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ. وَهُوَ اخْتِيَارُ الْعَامَّةِ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ وَالْخُلَاصَةِ". (الْبَابُ السَّابِعُ فِيمَا يُفْسِدُ الصَّلَاةَ وَمَا يُكْرَهُ فِيهَا، النَّوْعُ الثَّانِي فِي الْأَفْعَالِ الْمُفْسِدَةِ لِلصَّلَاةِ، ١ / ١٠١ - ١٠٢، ط: دار الفكر) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں