نماز میں انسان کو غیر اختیاری خیالات آتے رہتے ہیں، اگر بندہ اختیاری طور پر نماز میں خیالات کے ذریعے کبیرہ گناہ کا پلان بنائے جیسے زنا ،چوری ،اور قتل اوردوسرے بہت سے گناہ تو کیا حکم ہے؟
نماز پوری یک سوئی اور توجہ سے ادا کرنی چاہیے، تاہم نماز کے دوران اگر بلااختیار ذہن میں مختلف خیالات آجائیں تو اس سے نماز نہیں ٹوٹتی اور نہ انسان گناہ گار ہوتا ہے،غیر اختیاری طور پر آجائیں تو تنبہ اور توجہ ہونے کے بعد ان خیالات کو قصدًا دماغ میں چلایا نہ جائے۔
البتہ اپنے ارادے سے نماز میں کسی قسم کے خیالات نہ لائے جائیں اور اپنے اختیار سے برے خیالات جیسے زنا، چوری وغیرہ کا لانا نماز کے علاوہ بھی ممنوع ہے ، اور نماز میں اس قسم کے خیالات لانا زیادہ ممنوع اور نماز کی عظمت کے منافی ہے۔اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن غلط سوچنے اور فاسد خیالات کو پختہ ارادے کے ساتھ دل و دماغ میں دہرانےکی وجہ سے یہ دل و دماغ کا گناہ شمار ہوگا۔
ان خیالات سے چھٹکارے کے لیے چند امور کا اہتمام کریں:
1- جن عادتوں کی وجہ سے وساوس آتے ہیں ( غیر مفید کتابوں کا مطالعہ،ویڈیوز،موبائل کا غیر ضروری استعمال،غیر شرعی ماحول وغیرہ )ان سے اجتناب کریں۔
2-استنجا میں پاکی کا مکمل خیال رکھیں ۔
3-وضو سنت کے مطابق کریں۔
4-نماز سے قبل دل میں یہ تصور کریں کہ مالک الملک (بادشاہوں کے بادشاہ )کے دربار میں پیشی ہے،نیز اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کاتصور کرکے نماز اداکیا کریں کہ وہ مجھے دیکھ رہاہے۔
5-ہر نماز سے قبل یہ سوچیں کہ ممکن ہے کی یہ زندگی کی آخری نماز ہو دوبارہ موقع نہ ملے۔
6-جو پڑھیں اس کو مکمل دھیان اور توجہ سے پڑھیں۔
7- امام کی اقتدا میں نہ ہوں تو تلاوت اتنی آواز سے کریں کہ اپنے کانوں کو سنائی دے۔
8-باجماعت نماز میں امام کی آواز کی طرف دھیان رکھیں۔
9- کم از کم نماز کے ہررکن کی ادائیگی کے وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ اس کے بعد یہ رکن ادا کرنا ہے، اسی طرح نماز کے آخر تک دھیان رکھیں، نماز میں توجہ برقرار رکھنے کا یہ کم سے کم درجہ اور مجرب طریقہ ہے۔
10- نماز کے بعد استغفار کی عادت بنائیں۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144202200976
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن