بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں ہنسانے کا حکم


سوال

نماز میں ہنسانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نماز میں  ہنسنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اگر یہ ہنسی قہقہہ کے درجے  کی ہو تو وضوء بھی ٹوٹ جاتا ہے؛ لہذا جب ہنسنے سے نماز خراب ہوجاتی ہے تو پھر کسی شخص کے لیے نماز پڑھنے والے مسلمان کو  ہنسانا جائز نہیں ہے اور ہنسانے والا اس فعل پر گناہ گار ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها القهقهة) وحد القهقهة أن يكون مسموعا له ولجيرانه والضحك أن يكون مسموعا له ولا يكون مسموعا لجيرانه والتبسم أن لا يكون مسموعا له ولا لجيرانه. كذا في الذخيرة القهقهة في كل صلاة فيها ركوع وسجود تنقض الصلاة والوضوء عندنا. كذا في المحيط سواء كانت عمدا أو نسيانا كذا في الخلاصة.ولا تنقض الطهارة خارج الصلاة والضحك يبطل الصلاة ولا يبطل الطهارة والتبسم لا يبطل الصلاة ولا الطهارة."

(کتاب الطہارۃ، باب اول، فصل خامس ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۲ دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں