بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں دونوں ہاتھ سے قمیص ٹھیک کرنا


سوال

عموما نماز میں رکوع یا سجدے سے سیدھا کھڑے ہونے کے وقت دونوں ہاتھوں سے قمیض کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔ کیا ایسا کرنا عمل کثیر کے زمرے میں تو نہیں آتا اور کیا اس سے نماز ٹوٹ تو نہیں جاتی؟

جواب

’’عملِ کثیر ‘‘  کی فقہاء  نے تین تشریحات ذکر کی ہیں:

1: کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والے کو غالب گمان ہونے لگے کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا، جس کام کی ایسی کیفیت نہ ہو وہ عمل قلیل ہے۔

2: جو کام عام طور پر دو ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، مثلاً عمامہ باندھنا، ازار بند باندھنا وغیرہ، یہ تمام کام عملِ کثیر شمار ہوتے ہیں۔ اگر یہ کام ایک ہاتھ سے کرے تب بھی یہ عمل کثیر کہلائے گا۔ اور جو کام عام طور پر ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے وہ عملِ قلیل شمار ہوتا ہے، اگر یہ کام دو ہاتھوں سے کرے تب بھی عملِ قلیل ہی کہلائے گا۔

3: نماز کے کسی ایک ہی رکن میں تین مرتبہ  حرکت کرنا، مثلاً تین مرتبہ خارش کرنا، یا تین مرتبہ ٹوپی سیدھی  کرنا وغیرہ، یہ عمل کثیر ہے، ورنہ عمل قلیل ہے۔ 

ان میں راجح پہلی تفسیر ہے کہ دور سے دیکھنے والے کو یہ غالب گمان ہو کہ یہ شخص نماز نہیں پڑھ رہا۔ بہرحال سجدے میں جاتے ہوئے یا اٹھتے وقت قمیص کو دونوں یا ایک ہاتھ سے صحیح کرنا عملِ کثیر نہیں ہے، اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن بلاضرورت عمل قلیل بھی نہیں کرنا چاہیے، مکروہ ہے۔ اور اگر  قمیص ٹھیک  کرنا ضروری ہو تو ایک ہاتھ سے ہی کرے، دو سے نہ کرے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لايشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها) وإن شك أنه فيها أم لا فقليل۔

 (قوله: ليس من أعمالها) احتراز عما لو زاد ركوعا أو سجودا مثلا فإنه عمل كثير غير مفسد لكونه منها غير أنه يرفض لأن هذا سبيل ما دون الركعة ط قلت: والظاهر الاستغناء عن هذا القيد على تعريف العمل الكثير بما ذكره المصنف تأمل (قوله ولا لإصلاحها) خرج به الوضوء والمشي لسبق الحدث فإنهما لا يفسدانها ط. قلت: وينبغي أن يزاد ولا فعل لعذر احترازا عن قتل الحية أو العقرب بعمل كثير على أحد القولين كما يأتي، إلا أن يقال إنه لإصلاحها لأن تركه قد يؤدى إلى إفسادها تأمل (قوله: وفيه أقوال خمسة أصحها ما لا يشك إلخ) صححه في البدائع، وتابعه الزيلعي والولوالجي. وفي المحيط أنه الأحسن. وقال الصدر الشهيد: إنه الصواب. وفي الخانية والخلاصة: إنه اختيار العامة. وقال في المحيط وغيره: رواه الثلجي عن أصحابنا حلية.

القول الثاني أن ما يعمل عادة باليدين كثير وإن عمل بواحدة كالتعميم وشد السراويل وما عمل بواحدة قليل وإن عمل بهما كحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها إلا إذا تكرر ثلاثا متوالية وضعفه في البحر بأنه قاصر عن إفادة ما لا يعمل باليد كالمضغ والتقبيل. الثالث الحركات الثلاث المتوالية كثير وإلا فقليل ... الخ

(جلد۱، ص:۶۲۴، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں