بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں چھینک کا آنا


سوال

 نماز میں چھینک سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟

جواب

نماز میں چھینک آنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ، نیز  جس شخص کو نماز میں چھینک آئے اسے نماز کی حالت میں "الحمدللہ" نہیں کہنا چاہیے، تاہم چھینکنے والے شخص  نے نماز کی حالت میں چھینک آنے پر الحمدللہ کہہ دیا تو اس سے بھی نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ البتہ کسی کو چھینک آنے پر نماز کے دوران یرحمک اللہ کہنے کی اجازت نہیں، بصورتِ دیگر نماز فاسد ہو جائے گی۔

درر الحكام شرح غرر الأحكام - (1 / 451):
( قوله : ولو قال العاطس أو السامع الحمد لله لا تفسد ) أقول ، كذا في الهداية لكن بصيغة على ما قالوا .
وقال الكمال قوله على ما قالوا إشارة إلى ثبوت الخلاف ا هـ .

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (2 / 5)
 وقيد بقوله يرحمك الله لأنه لو قال العاطس أو السامع الحمد لله لا تفسد لأنه لم يتعارف جوابا وإن قصده وفيه اختلاف المشايخ ومحله عند إرادة الجواب أما إذا لم يرده بل قاله رجاء الثواب لا تفسد بالاتفاق  كذا في غاية البيان۔

البتہ نماز کے باہر چھینک آنے کو پسند کیاگیا ہے جب کہ  بعض روایات سے نماز کی حالت میں چھینک کے آنے کا ناپسندیدہ ہونا معلوم ہوتاہے۔

ملاحظہ فرمائیں، امام ترمذی رحمہ اللہ نے نماز کے اندر چھینک آنے کے بارے میں نقل  فرمایاہے: 

"حدثنا على بن حجر أخبرنا شريك عن أبى اليقظان عن عدى بن ثابت عن أبيه عن جده رفعه قال: «العطاس والنعاس والتثاؤب في الصلاة والحيض والقيء والرعاف من الشيطان". (سنن الترمذي، باب ما جاء أن العطاس في الصلاة من الشیطان: ۵/۸۳، ط:مکتبہ مصطفی البابی حلب)

اس حدیث میں نماز کے دوران  چھینک کو شیطان کی طرف سے قرار دیا گیا ہے، دوسری روایت میں  امام ترمذی رحمہ اللہ نے چھینک کو اللہ کے ہاں محبوب قرار دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:

"حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: أخبرنا ابن أبي ذئب، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله يحب العطاس ويكره التثاؤب، فإذا عطس أحدكم فقال: الحمد لله فحق على كل من سمعه أن يقول: يرحمك الله، وأما التثاؤب، فإذا تثاءب أحدكم فليرده ما استطاع ولايقولن: هاه هاه، فإنما ذلك من الشيطان يضحك منه ". هذا حديث صحيح". (سنن الترمذي، باب ماجاء أن الله یحب العطاس ویکره التثاؤب، 

  :۵/۸۳، ط: مکتہ مصطفی البابی حلب)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھینک پسند ہے اور جمائی ناپسند ہے، اسی ظاہری تعارض کو دور کرنے کے لیے علامہ مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"لايعارض قوله هنا: "العطاس من الله" قوله في حديث عدي بن ثابت: "العطاس في الصلاة من الشيطان"؛ لأن هذا الحديث مطلق، وحديث جد عدي مقيد بحالة الصلاة، وقديتسبب الشيطان في حصول العطاس للمصلي ليستثقل به عنه". (فیض القدیر للمناوی:۴/۵۰۰،ط:دارالکتب العلمیہ )

یعنی  یہ دونوں حدیثیں باہم متعارض نہیں ہے؛ کیوں کہ جن میں محبوب ہونے کا تذکرہ ہے وہ نماز کے باہر ہے، اور جہاں شیطان کا عمل قرار دیا گیا ہے وہ نماز کے اندر ہے، لہذا ان روایات میں تعارض نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں