بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں چہرہ چھپانا


سوال

کوئی شخص اپنا چہرہ اس طرح ڈھانپے کہ اُس کی داڑھی اور تھوڑی سی بھنویں بھی چھپ جائے تو کیا یہ مکروہ ہوگا یا نہیں ہوگا؟  اور محض چہرے کے دانے، پھنسی وغیرہ یہ عذر میں داخل ہوں گے؟

جواب

اگر سوال کا مقصد نماز میں اپنا چہرہ چھپانے کے متعلق پوچھنا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ نماز میں بغیر عذر کے چہرے کا کوئی حصہ چھپانا مثلاً داڑھی، ناک، بھنویں وغیرہ، یہ سب مکروہ ہے تاہم اگر عذر کی وجہ سے چھپانا پڑے تو جائز ہے، محض چہرے کے دانے، پھنسی وغیرہ کو لوگوں سے چھپانا اس کے لیے عذر نہیں بن سکتا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"[فروع اشتمال الصلاة على الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر]

(قوله يكره اشتمال الصماء) لنهيه - عليه الصلاة والسلام - عنها، وهي أن يأخذ بثوبه فيخلل به جسده كله من رأسه إلى قدمه ولا يرفع جانبا يخرج يده منه؛ سمي به لعدم منفذ يخرج منه يده كالصخرة الصماء وقيل أن يشتمل بثوب واحد ليس عليه إزار، وهو اشتمال اليهود زيلعي. وظاهر التعليل بالنهي أن الكراهة تحريمية كما مر في نظائره (قوله والاعتجار) لنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عنه، وهو شد الرأس، أو تكوير عمامته على رأسه وترك وسطه مكشوفا وقيل أن يتنقب بعمامته فيغطي أنفه إما للحر أو للبرد أو للتكبر إمداد، وكراهته تحريمية أيضا لما مر (قوله والتلثم) وهو تغطية الأنف والفم في الصلاة لأنه يشبه فعل المجوس حال عبادتهم النيران زيلعي. ونقل ط عن أبي السعود أنها تحريمية."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج1، ص652، سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں