بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں عجمی زبان میں دعا کرنا، اور قضا نمازوں کی ادائے گی کاطریقہ


سوال

 ایک عورت کا بیٹا نشے کا عادی ہو گیا، کسی دوسری عورت نے اسے بتایا کہ ہر نماز میں رکوع سے کھڑے ہو کر سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کے درمیان 3 بار" یااللہ میرے بیٹے کو نشہ چھڑوا دے"، پڑھا کریں، اور اوپر دیکھا کریں. اس عورت نے اس طرح نماز تقریباً 20 سال پڑھی، اب اس عورت کو پتہ چلا کہ یہ الفاظ نماز کا حصہ نہیں، اب کافی پریشان ہے کہ نماز قبول ہوئی ہو گی یا نہیں؟ اگر غلط ہے، تو نماز کے طریقے کی غلطی پر کفارہ وغیرہ کیا ادا کرے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ عورت نے جتنے عرصے اپنی نمازمیں اس دعا کو مانگا ہے،اتنے عرصے کی نمازیں فاسد ہیں ، ان کی قضاکرنا اس عورت پر لازم ہے،جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ  ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)،  جتنے برس  کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں ،اُنہیں اپنے بیس سال کے حساب میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ  ہوجائے گی۔ تاہم اگر مذکورہ خاتون  اس سے زائد مقدار میں قضاء کرسکتی ہے تو   جلد از جلد قضاء کرلے ۔

ان فوت شدہ نمازوں کو قضاکرنے سے ہی وہ ذمہ سے ساقط ہوں گی،زندگی میں نمازوں کا فدیہ دینا جائز نہیں ۔ نیز دینی معاملات اہل علم سے ہی معلوم کیا جائے۔ ہر کسی کی بات پر عمل نہ کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ودعا) بالعربية، وحرم بغيرها ...... (بالأدعية المذكورة في القرآن والسنة. لا بما يشبه كلام الناس)۔۔۔والمختار كما قاله الحلبي أن ما هو في القرآن أو في الحديث لايفسد، وما ليس في أحدهما إن استحال طلبه من الخلق لايفسد، وإلا يفسد لو قبل قدر التشهد".

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:521/ 523، ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.

 

(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".

(كتاب الصلوة، ج:2، ص:76، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں