بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں ایک سجدہ رہ جائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

نماز  میں اگرکسی کاایک سجدہ رہ جائے تو نماز کاکیاحکم ہے؟

جواب

سجدہ نماز کے ارکان میں سے ہے، لہذا اگر کسی شخص کا نماز میں ایک سجدہ رہ گیا اور اس نے نماز مکمل کرلی ہو تو ایسی صورت میں اس پر مذکورہ نماز کا اعادہ لازم ہوگا، آخر میں سجدہ سہو کرنا کافی نہ ہوگا، البتہ اگر نماز کے دوران ہی علم ہوگیا اور اس نے  سلام سےپہلے مذکورہ سجدہ کرلیا تو اس صورت میں سجدہ سہو کرنا واجب ہوگا، بصورتِ  دیگر اس نماز کے وقت میں مذکورہ نماز کا اعادہ لازم ہوگا، وقت گزرجانے کی صورت میں نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوجائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَفِي الْوَلْوَالِجِيَّة: الْأَصْلُ فِي هَذَا أَنَّ الْمَتْرُوكَ ثَلَاثَةُ أَنْوَاعٍ فَرْضٌ وَسُنَّةٌ وَوَاجِبٌ فَفِي الْأَوَّلِ أَمْكَنَهُ التَّدَارُكُ بِالْقَضَاءِ يَقْضِي وَإِلَّا فَسَدَتْ صَلَاتُهُ، وَفِي الثَّانِي لَا تَفْسُدُ؛ لِأَنَّ قِيَامَهَا بِأَرْكَانِهَا وَقَدْ وُجِدَتْ وَلَا يُجْبَرُ بِسَجْدَتَيْ السَّهْوِ وَفِي الثَّالِثِ إنْ تَرَكَ سَاهِيًا يُجْبَرُ بِسَجْدَتَيْ السَّهْوِ وَإِنْ تَرَكَ عَامِدًا لَا، كَذَا التَّتَارْخَانِيَّة.

وَظَاهِرُ كَلَامِ الْجَمِّ الْغَفِيرِ أَنَّهُ لَا يَجِبُ السُّجُودُ فِي الْعَمْدِ وَإِنَّمَا تَجِبُ الْإِعَادَةُ جَبْرًا لِنُقْصَانِهِ، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.

وَلَا يَجِبُ السُّجُودُ إلَّا بِتَرْكِ وَاجِبٍ أَوْ تَأْخِيرِهِ أَوْ تَأْخِيرِ رُكْنٍ أَوْ تَقْدِيمِهِ أَوْ تَكْرَارِهِ أَوْ تَغْيِيرِ وَاجِبٍ بِأَنْ يَجْهَرَ فِيمَا يُخَافَتُ وَفِي الْحَقِيقَةِ وُجُوبُهُ بِشَيْءٍ وَاحِدٍ وَهُوَ تَرْكُ الْوَاجِبِ، كَذَا فِي الْكَافِي."

(كتاب الصلاة، الْبَابُ الثَّانِي عَشَرَ فِي سُجُودِ السَّهْوِ، ١ / ١٢٦، ط: دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"الرابع رعاية الترتيب في فعل مكرر فلو ترك سجدة من ركعة فتذكرها في آخر صلاة سجدها وسجد للسهو لترك الترتيب فيه وليس عليه إعادة ما قبلها."

( كتاب الصلاة، باب سجود السهو، ٢ / ١٠٢، ط: دار الكتاب الاسلامي)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"وإعادتها بتركه عمداً" أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر كما في الدر وغيره، ويندب إعادتها لترك السنة".

(كتاب الصلاة، فصل في بيان واجب الصلاة،  ص: ٢٤٧ - ٢٤٨، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200654

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں