بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہر رکعت میں دو سجدے کیوں ہیں؟


سوال

نماز میں رکوع تو  ایک ہے مگر سجدے دو کیوں ہیں? 

جواب

نماز کی ہر رکعت میں ایک رکوع اور دوسجدے فرض ہیں، اَصل بات تو یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طریقے کے مطابق نماز کا حکم دیا اور رسول اللہ ﷺ نے امت کو اسی کے مطابق نماز سکھاکر فرمادیا کہ اُس طرح نماز ادا کرو جیسے مجھے نماز ادا کرتے دیکھا ہے، اگر رسول اللہ ﷺ ہمیں ایک رکعت میں ایک سے زیادہ رکوع تلقین فرماتے تو ایک سے زیادہ رکوع فرض ٹھہرتے، ایک رکعت میں ایک سجدہ طے فرماتے تو ایک ہی سجدہ فرض ٹھہرتا، بہرحال کوئی نہ کوئی عدد تو مقرر ہوتا، اس لیے مؤمن کی شان تو یہی ہے کہ وہ دین کے اَحکام کو حکمِ خداوندی سمجھ کر تسلیم کرلے، خواہ اس کی حکمت و مصلحت اور علت سمجھ میں آئے یا نہیں، بے شک شریعت کے اَحکام مختلف حکمتوں اور مصالح پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن شریعت کے احکام پر عمل کرنا حکمتوں یا مصلحتوں کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، لہذا احکام پر عمل انہیں اللہ اور اس کے رسول کا حکم سمجھ کر کرنا چاہیے ، حکمتوں اور مصلحتوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔

تاہم فقہائے کرام، علماء اور صوفیائے امت نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس کی مختلف حکمتیں بیان کی ہیں:

1-   بعض حضرات نے فرمایا: چوں کہ سجدے میں زیادہ تواضع ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب بھی بہ نسبت رکوع کے زیادہ حاصل ہوتاہے؛ اس لیے سجدے کے تکرار کا حکم دیا، گویا بندہ، اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے کمالِ عجز و انکساری کا پے درپے عملی مظاہرہ کرتاہے، ایک کے بعد ایک مرتبہ زمین پر پیشانی رکھنے سے بار بار عجز و انکساری کے ساتھ حاضر ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

2- بعض نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ملائکہ کو سجدے کا حکم دیااور ابلیس نے اس حکم سے اعراض کیا، ملائکہ نے ایک سجدے کے بعد جب دیکھاکہ ابلیس نافرمانی اور شقاوت کی وجہ سے سجدہ کرنے سے کتراتا رہا؛ لہذا ملائکہ  نے توفیقِ خداوندی پر دوبارہ سجدہ شکر ادا کیا۔

3- بعض حضرات نے فرمایا: اللہ پاک نے تمام بنو آدم سے عہد لیتے وقت انہیں سجدے کا حکم دیا تو مؤمنین سربسجود ہوگئے، جب انہوں نے سجدے سے اٹھ کر دیکھا کہ کفار نے سجدہ نہیں کیا تو انہوں نے توفیقِ خداوندی اور اللہ کا حکم بجالانے کی نعمت کے شکرانے کے طور پر دوسرا سجدہ بھی کیا۔

4- بعض حضرات نے لکھا ہے کہ دو سجدوں کے مقرر کرنے میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ انسان مٹی سے پیدا ہوا  اور اسی مٹی میں واپس جاناہے۔

حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

" نماز میں دو سجدے مقرر ہونے کی وجہ: سجدۂ اوّل نفس کو اس بات پر متنبہ کرنے کے لیے ہے کہ میں اس خاک سے پیدا ہوا ہوں اور دوسرا سجدہ اس بات پر دال ہے کہ میں اسی خاک میں لوٹ جاؤں گا"۔(احکام اسلام عقل کی نظر میں ، ص:63مکتبہ عمر فاروق کراچی)

مراقي الفلاح بإمداد الفتاح شرح نور الإيضاح ونجاة الأرواح - (1 / 126):

"وحكمة تكرار السجود قيل: تعبدي، وقيل: ترغيمًا للشيطان حيث لم يسجد مرةً، وقيل: لما أمر الله بني آدم بالسجود عند أخذ الميثاق ورفع المسلمون رؤوسهم ونظروا الكفار لم يسجدوا خروا سجدًا ثانيًا شكرًا لنعمة التوفيق وامتثال الأمر".

حاشيتا قليوبي وعميرة - (2 / 361):

"قَوْلُ الْمَتْنِ : ( ثُمَّ يَسْجُدُ الثَّانِيَةَ كَالْأُولَى ) إنَّمَا شُرِعَ تَكْرَارُ السُّجُودِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ لِأَنَّهُ أَبْلَغُ فِي التَّوَاضُعِ ، ثُمَّ إنَّ صَنِيعَ الْمُصَنِّفِ كَمَا تَرَى يَقْتَضِي أَنَّ السَّجْدَتَيْنِ مَعًا رُكْنٌ وَاحِدٌ، وَفِي ذَلِكَ وَجْهَانِ حَكَاهُمَا الْغَزَالِيُّ وَغَيْرُهُ، وَصَحَّحَ أَعْنِي الْغَزَالِيَّ أَنَّهُمَا رُكْنَانِ".

نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج - (4 / 282):

"وَإِنَّمَا شُرِعَ تَكْرَارُ السُّجُودِ دُونَ غَيْرِهِ؛ لِأَنَّهُ أَبْلَغُ فِي التَّوَاضُعِ وَأَنَّهُ لَمَّا تَرَقَّى فَقَامَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ سَجَدَ وَأَتَى بِنِهَايَةِ الْخِدْمَةِ أَذِنَ لَهُ فِي الْجُلُوسِ فَسَجَدَ ثَانِيًا شُكْرًا لِلَّهِ عَلَى اسْتِخْلَاصِهِ إيَّاهُ وَلِأَنَّ الشَّارِعَ لَمَّا أَمَرَ بِالدُّعَاءِ فِيهِ وَأَخْبَرَ بِأَنَّهُ حَقِيقٌ بِالْإِجَابَةِ سَجَدَ ثَانِيًا شُكْرًا لِلَّهِ عَلَى إجَابَتِنَا لِمَا طَلَبْنَاهُ ، كَمَا هُوَ الْمُعْتَادُ فِيمَنْ سَأَلَ مَلِكًا شَيْئًا فَأَجَابَهُ ، وَلِأَنَّهُ لَمَّا عُرِجَ بِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلَى السَّمَاءِ فَمَنْ كَانَ مِنْ الْمَلَائِكَةِ قَائِمًا سَلَّمَ عَلَيْهِ كَذَلِكَ ثُمَّ سَجَدُوا شُكْرًا لِلَّهِ تَعَالَى عَلَى رُؤْيَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَنْ كَانَ رَاكِعًا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ سَلَّمُوا عَلَيْهِ ثُمَّ سَجَدُوا شُكْرًا لِلَّهِ تَعَالَى عَلَى رُؤْيَتِهِ ، فَلَمْ يُرِدْ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ لِلْمَلَائِكَةِ حَالٌ إلَّا وَجَعَلَ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ حَالًا هُوَ مِثْلُ حَالِهِمْ ، وَلِأَنَّ فِيهِ إشَارَةً إلَى أَنَّهُ خُلِقَ مِنْ الْأَرْضِ وَسَيَعُودُ إلَيْهَا".

  • كشاف القناع عن متن الإقناع،3/22.
  • رحمۃ اللہ الواسعۃ ، 1/110زمزم پبلشرز۔
  • اصلاحی مواعظ ،شہیداسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ،8/104۔مکتبہ لدھیانوی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں