بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں ایاک نعبد وایاک نستعین میں ی پر تشدید کے بجائے زبر پڑھ لینا


سوال

میں سعودیہ میں رہتا ہوں ، یہاں کسی کو بھی امام کھڑا کر دیتے ہیں،  میں باریش ہوں،  اک دن مغرب کی امامت میں مجھے معتبر جان کرکھڑا کر دیا ،  میں جب سورہ فاتحہ میں" ایاک نعبد و ایاک نستعین"   پر پہنچا تو مجھے شک ہوا کہ ی پر شد ہے کہ زبر ، میں نے پہلی بار اسے شد سےپڑھا ، پھر مجھے لگا کہ شاید ایاک میں ی پر زبر ہے تو میں نے اسے زبر سے دوبارہ پڑھ دیا،  اب مجھے ادراک ہوا کہ ایاک میں ی پر شد ہی ہے اور زبر پڑھنے سے معانی بدل جاتے ہیں تو اسی کشمکش میں اور پیچھے مقتدیوں کے پریشر میں ، میں دوبارہ اس رکعت میں آیت کو درست کر کے نہ پڑھ سکا اور نماز مکمل کر لی۔ سوال یہ ہے کہ کیا نماز ہوئی؟ نہیں تو کیسے ہو گی؟ بعض اس آیت کو لے کر کفر تک کے فتوے لگاتے ہیں، میری صورت حال میں کیا کہا جائے گا؟ تجدید ایمان و نکاح کی ضرورت تو نہیں؟ ضرورت ہے تو کیسے کیا جائے؟ بہت پریشان ہوں۔ 

جواب

 نماز میں   قرآن مجید  کی تلاوت  کے دوران اگر  غلطی سے  کسی لفظ کا اعراب اس طرح  غلط پڑھ لیا جائے کہ اس سے  معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اور غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) تو  متقدمین فقہاء کرام کے نزدیک  نماز فاسد ہوجاتی ہے، البتہ متاخرین  اس طرح  کی اعراب کی غلطیوں میں توسّع  دیتے ہیں اور نماز کے فاسد نہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں؛ اس لیے کہ لوگ  خصوصا اہل عجم   اعراب میں فرق نہیں کرپاتے، متقدمین کا قول احوط ہے؛ اس لیے ایسی صورت میں نماز کا اعادہ کرلینا چاہیے۔

لہذا  صورت مسئولہ میں سائل نے   نماز  میں قراءت کرتے ہوئے "إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" میں "إِيَّاكَ" پر تشدید کے بجائے  زبر پڑھ لیا  تو نماز ہوگئی ہے، البتہ آئندہ ایسا نہ کرے۔

باقی  سائل کا اس لفظ کو پڑھنے سے کفریہ معنی کا اعتقاد نہیں تھا، بلکہ غلطی سے اس نے یہ پڑھ لیا تھا تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"(ومنها اللحن في الإعراب) إذا لحن في الإعراب لحنا لا يغير المعنى بأن قرأ لا ترفعوا أصواتكم برفع التاء لا تفسد صلاته بالإجماع وإن غير المعنى تغييرا فاحشا بأن قرأ وعصى آدم ربه بنصب الميم ورفع الرب وما أشبه ذلك مما لو تعمد به يكفر. إذا قرأ خطأ فسدت صلاته في قول المتقدمين واختلف المتأخرون: قال محمد بن مقاتل وأبو نصر محمد بن سلام وأبو بكر بن سعيد البلخي والفقيه أبو جعفر الهندواني وأبو بكر محمد بن الفضل والشيخ الإمام الزاهد وشمس الأئمة الحلواني لا تفسد صلاته. وما قاله المتقدمون أحوط؛ لأنه لو تعمد يكون كفرا وما يكون كفرا لا يكون من القرآن وما قاله المتأخرون أوسع؛ لأن الناس لا يميزون بين إعراب وإعراب. كذا في فتاوى قاضي خان وهو الأشبه. كذا في المحيط وبه يفتى. كذا في العتابية وهكذا في الظهيرية."

(1 / 81، كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الخامس في زلة القارئ، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ومنها زلة القارئ  فلو في إعراب أو تخفيف مشدد وعكسه، أو بزيادة حرف  فأكثر نحو الصراط الذين، أو بوصل حرف بكلمة نحو إياك نعبد، أو بوقف وابتداء لم تفسد وإن غير المعنى به يفتى بزازية.

وفي الرد: فنقول: إن الخطأ إما في الإعراب أي الحركات والسكون ويدخل فيه تخفيف المشدد وقصر الممدود وعكسهما أو في الحروف بوضع حرف مكان آخر، أو زيادته أو نقصه  أو تقديمه أو تأخيره أو في الكلمات أو في الجمل كذلك أو في الوقف ومقابله. والقاعدة عند المتقدمين أن ما غير المعنى تغييرا يكون اعتقاده كفرا يفسد في جميع ذلك، سواء كان في القرآن أو لا إلا ما كان من تبديل الجمل مفصولا بوقف تام وإن لم يكن التغيير كذلك، فإن لم يكن مثله في القرآن والمعنى بعيد متغير تغيرا فاحشا يفسد أيضا كهذا الغبار مكان هذا الغراب.

وكذا إذا لم يكن مثله في القرآن ولا معنى له كالسرائل باللام مكان السرائر، وإن كان مثله في القرآن والمعنى بعيد ولم يكن متغيرا فاحشا تفسد أيضا عند أبي حنيفة ومحمد، وهو الأحوط. وقال بعض المشايخ: لا تفسد لعموم البلوى، وهو قول أبي يوسف وإن لم يكن مثله في القرآن ولكن لم يتغير به المعنى نحو قيامين مكان قوامين فالخلاف على العكس فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغير المعنى كثيرا وجود المثل في القرآن عنده والموافقة في المعنى عندهما، فهذه قواعد الأئمة المتقدمين. وأما المتأخرون كابن مقاتل وابن سلام وإسماعيل الزاهد وأبي بكر البلخي والهندواني وابن الفضل والحلواني، فاتفقوا على أن الخطأ في الإعراب لا يفسد مطلقا ولو اعتقاده كفرا لأن أكثر الناس لا يميزون بين وجوه الإعراب. قال قاضي خان: وما قال المتأخرون أوسع، وما قاله المتقدمون أحوط."

(1 / 630، کتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة...الخ، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408102528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں