بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں سجدہ کے دوران پاؤں اٹھ جانے سے نماز فاسد ہونے کا حکم


سوال

سجدہ میں بعض دفعہ دونوں پاؤں(قدم) زمین سے اٹھ جاتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے نماز ختم ہو جاتی ہے، اس بارے میں رہنمائی فرمادیں؟

جواب

سجدہ  کے دوران دونوں پیروں کو زمین پر رکھنا ضروری ہے، اگر پورے سجدے میں دونوں پاؤں کو  زمین سے بالکل اٹھائے رکھا  تو سجدہ ادا نہیں ہوگا، کم از کم ایک انگلی بھی سجدہ میں ایک رکن (سبحان اللہ کہنے) کی مقدار  زمین سے لگ گئی تو فرض ادا ہوجائے گا، لیکن عذر کے بغیر ایک پاؤں  کو بھی اٹھائے رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ عذر ہو تو مکروہ نہیں ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص کے سجدہ کے دوران  دونوں پاؤں زمین پر رہتے ہیں تو  اس کا سجدہ ادا ہوجائے گا، اور اگر دونوں پاؤں سجدہ کے دوران بالکل بھی زمین پر نہیں رہتے تو سجدہ ادا نہیں ہوگا اور نماز بھی نہیں ہوگی،  اگر سجدہ کے دوران پاؤں زمین پر رہتے ہیں درمیان میں یا سجدہ کے شروع اور آخر میں زمین سے اٹھ جاتے ہیں تو اگر یہ عذر کی وجہ سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اگر عذر نہ ہو  تو مکروہ ہوگا ، پورے سجدے میں اگر پاؤ ں کی ایک بھی انگلی زمین پر نہیں رکھی ہو تو سجدہ ادا نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہیں ہوتی ، اگر سجدہ میں ایک تسبیح کی مقدار بھی پاؤں زمین پر رکھ لیا ہو (چاہے ایک انگلی ہی زمین پر رکھ لی ہو) تو پھر اس سجدہ میں پاؤں اٹھ جانے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوتی، البتہ ایسا کرنا (یعنی سجدے میں کچھ دیر پاؤں زمین پر رکھنا اور کچھ دیر بلاعذر اٹھالینا)  مکروہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومنها السجود) بجبهته وقدميه، ووضع إصبع واحدة منهما شرط."

"(قوله وقدميه) يجب إسقاطه ‌لأن ‌وضع ‌إصبع ‌واحدة ‌منهما يكفي كما ذكره بعد ح. وأفاد أنه لو لم يضع شيئا من القدمين لم يصح السجود."

(کتاب الصلاۃ، باب صفة الصلاة،، مطلب، ج:1، ص:447، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وفيه ‌يفترض ‌وضع ‌أصابع ‌القدم ولو واحدة نحو القبلة وإلا لم تجز، والناس عنه غافلون."

"(قوله وفيه إلخ) .... ‌ويؤيده ‌ما ‌في ‌شرح ‌المجمع ‌لمصنفه حيث استدل على أن وضع اليدين والركبتين سنة بأن ماهية السجدة حاصلة بوضع الوجه والقدمين على الأرض إلخ وكذا ما في الكفاية عن الزاهدي من أن ظاهر الرواية ما ذكر في مختصر الكرخي، وبه جزم في السراج فقال: لو رفعهما في حال سجوده لا يجزيه، ولو رفع إحداهما جاز. وقال في الفيض: وبه يفتى. هذا، وقال في الحلية: والأوجه على منوال ما سبق هو الوجوب لما سبق من الحديث اهـ أي على منوال ما حققه شيخه من الاستدلال على وجوب وضع اليدين والركبتين، وتقدم أنه أعدل الأقوال فكذا هنا، فيكون وضع القدمين كذلك واختاره أيضا في البحر والشرنبلالية."

 

(‌‌‌‌کتاب الصلاۃ، باب صفة الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها، فروع، ج:1، ص:499، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو ‌سجد ‌ولم ‌يضع ‌قدميه ‌على ‌الأرض ‌لا ‌يجوز ولو وضع إحداهما جاز مع الكراهة إن كان بغير عذر. كذا في شرح منية المصلي لابن أمير الحاج ووضع القدم بوضع أصابعه وإن وضع أصبعا واحدة فلو وضع ظهر القدم دون الأصابع بأن كان المكان ضيقا إن وضع إحداهما دون الأخرى تجوز صلاته كما لو قام على قدم واحدة. كذا في الخلاصة."

(كتاب الصلاة، الباب الرابع، الفصل الأول، ج:1، ص:70، ط:رشيدية)

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"وأما ‌وضع ‌القدمين ‌فقد ‌ذكر ‌القدوري - رحمه الله - أنه فريضة في السجود ‌وأما ‌افتراض ‌وضع ‌القدم ‌فلأن ‌السجود مع رفعهما بالتلاعب أشبه منه بالتعظيم والإجلال، ويكفيه وضع أصبع واحدة وفي الوجيز وضع القدمين فرض، فإن وضع إحداهما دون الأخرى جاز ويكره."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج:1، ص:305، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں