بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں رکعت بھول جانے پر کیا کریں؟ لڑکے کےاحتجاج کے باوجود گھر والوں نے جہیز لیا اب لڑکا اس کا کفارہ ادا کیسے کرے؟


سوال

1: نماز میں رکعت بھول جانے پر کیا کریں؟

  2 : لڑکے کےاحتجاج کے باوجود گھر والوں نے جہیز لیا اب لڑکا اس کا کفارہ ادا کیسے کرے؟

جواب

1:                       اگر کسی شخص کوکبھی کبھار نماز کی رکعتوں میں شک ہوجائے  تو اسے  چاہیے کہ نیت توڑ کر از سرِ نو نماز پڑھے  اور  اگر بار بار نماز میں شک ہوجاتا ہو تو ظنِ  غالب پر عمل کرے ، یعنی: جتنی رکعتیں  پڑھ لینے کا  گمان غالب ہو اس کو بنیاد بنائے ، اور اگر کوئی فیصلہ نہ کرسکے تو جتنی رکعت پڑھنےکا یقین ہو مثلًا: چار رکعات والی نماز میں شک ہوجائے کہ ایک پڑھی ہے یا دو  ،  یا  تین پڑھی ہیں  یا چار،  تو جو  کم  عدد ہے  اس کو لے لے ؛ کیوں کہ وہ یقینی ہے ، نیز  آگے  کی ہر رکعت  پر قعدہ کرے اور اخیر میں سجدہ سہو کرلے۔

مجمع الانہر میں ہے:

"(وإن شك في صلاته) أنه (كم صلى إن كان أول ما عرض له) في تلك الصلاة كما قال فخر الإسلام واختاره ابن الفضل، وقال أكثر المشايخ: إن كان أول ما وقع له في عمره، وقال شمس الأئمة السرخسي: إن كان السهو ليس بعادة له، وهو أشبه كما في المحيط (استقبل) ثم الاستقبال لايتصور إلا بالخروج عن الأولى، وذلك بالسلام أو الكلام أو عمل آخر مما ينافي الصلاة لكن السلام قاعدًا أولى، ومجرد النية لم تكف في القطع.

(وإلا) أي وإن لم تكن أول ما عرض له بل يعرض كثيرا (تحرى وعمل بغلبة ظنه) دفعا للحرج وسجد للسهو حتى لو ظن أنها أربعة مثلًا فأتم وقعد وضم إليها أخرى وقعد احتياطًا كان مسيئًا كما في المنية (فإن لم يكن له ظن بنى على الأقل) المتيقن (وقعد في كل موضع احتمل أنه موضع القعود) فلو شك مثلًا في ذوات الأربع أنه يصلي ركعة أو ركعتين أو ثلاثًا أو أربعًا أو لم يصل شيئًا فقعد قدر التشهد لاحتمال أنه صلى أربعًا ثم صلى أربع ركعات يقعد في كل ركعة قدر التشهد لأنه يمكن أن يكون آخر صلاته والقعدة الأخيرة فرض فلو شك في الوتر وهو قائم أنها ثانية أو ثالثة يتم تلك الركعة ويقنت فيها ويقعد ثم يقوم ويصلي أخرى ويقنت فيها أيضا.

(مجمع الأنهر: كتاب الصلاة، باب سجود السهو، (1/152)،ط.دار إحياء التراث العربي)

2:    جہیز  اُس  اسباب وسامان کو کہا جاتا ہے جو بیٹی کی شادی کے موقع پر  ماں باپ کی طرف سے یا لڑکی کے خاندان کی طرف سے لڑکی کو دیا جاتا ہے،اگر یہ اسباب و سامان  لڑکی والے  اپنی خوشی سے اپنی  لڑکی کو  دے دیں تو  اس میں کوئی حرج نہیں،  لیکن  لڑکے والوں کی طرف سے  جہیز کا مطالبہ کرنا اور لڑکی والوں کو جہیز دینے پر مجبور کرنا شرعًا گناہ ہے۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر  لڑکے کے  گھر والوں نے لڑکی والوں کو مجبور کرکے جہیز لیا ہو تو   اس پروہ  گناہ گار  ہوئے ہیں ، اس پر وہ استغفار کریں۔باقی   لڑکے کا جہیز لینے پر  احتجاج کرنا مستحسن عمل تھا، اس پر  وہ عنداللہ ماجور ہوگا۔  بہرصورت جہیز کا سامان لڑکی کی ملکیت ہے، اور بیوی کی اجازت سے اس کا استعمال لڑکے کے  لیے جائز ہے۔  تاہم اگر لڑکی والوں نےلڑکے  والوں کے مطالبہ پر بادل نخواستہ   لڑکے کے  لیے بھی جہیز کے سامان  میں کچھ  دیا ہو تو لڑکا   اسے واپس کردے، اور استعمال کرچکا ہو تو اس کا عوض  واپس کرے۔

البتہ اگر لڑکی والوں نے  اپنی خوشی سے جہیز دیا ہو  یا لڑکے کو اپنی خوشی سے کچھ سامان دیا ہو یا اب اس پر  دل سے راضی  ہوں تو شوہر کے لیے اس کا استعمال جائز ہوگا۔

اللباب شرح الکتاب میں ہے:

"لا جبر في التبرع."

(اللباب شرح الكتاب:كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية (1/ 127)،ط.دار الكتاب العربي)

فقط، والله اعلم


فتوی نمبر : 144207201400

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں