بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں قراءت کی غطی کے فوراً بعد اس کی اصلاح کرلینا


سوال

ایک شخص نے جمعہ کی نماز  کی پہلی رکعت میں قراءت کرتے ہوئے  آیت غلط پڑھ لی، اور پھر ٹھیک کرلیا اور نماز مکمل کرلی، یعنی سور‬هٔ نازعات کی آیت نمبر 40 سے قراءت شروع کی، جب اس آیت پر  پہنچے "{كَأَ نَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا} " تو اس شخص نے "كَأَ  نَّهُمْلَمْيَرَوْهَا" پڑھا اور فوراً اس شخص نے آیت درست کرلی، نماز کے بعد ایک صاحب نے اس شخص سے کہا کہ نماز لوٹادو، تو اس نے  مجھ سے کہا کہ کوئی حافظ ہے تو تین حافظ کھڑے ہوگئے  ، ان سے اس شخص نے پوچھا کہ میں نے آیت درست کی ہے؟ تو حافظوں نے گواہی دی کہ بالکل آیت درست کی ہے، اب سوال یہ ہے کہ جمعہ کی نماز ہوئی یا نہیں ہوئی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں امام صاحب نے جمعہ کی نماز میں   قرأت کرتے ہوئے سورۂ نازعات کی آیت  میںْ۔  "كَأَ نَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا" کے  بجائے   "كَأَ نَّهُمْ لَمْ يَرَوْهَا"   پڑھ  لیا اور پھر اس کے فوراً بعد (اسی رکعت میں ) اس کی اصلاح کرکے آیت کو صحیح پڑھ لیا، جس کی تصدیق مقتدیوں میں سے حفّاظ بھی کررہے ہیں تو ایسی صورت  میں نماز ادا ہوگئی ہے، اس نماز کو لوٹانے  کی ضرورت نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ذكر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش، ثم رجع وقرأ صحيحاً، قال: عندي صلاته جائزة وكذلك الإعراب." 

 (1 / 82، الفصل الخامس فی زلۃ القاری، ط؛رشیدیة)

امداد الفتاوی میں ہے:

’’سوال 225: اگر کسے ”اما من ثقلت موازینه فامه هاویه“  خواندہ فی الفور صحیحش نمودہ  نماز ادا  کرد، نمازش صحیحش  باشد یا نہ؟

جواب:  "في العالمگیریة: ذكر في الفوائد لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش ثم رجع وقرأ صحيحاً، قال: عندي صلاته جائزة، وكذلك الإعراب" ، قلت وکذا سمعت شیخي مولانا محمد یعقوب ؒ ، پس بنا علیہ ایں کس نماز صحیح باشد۔“

(1/168،  باب القرأت ، مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں