بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں قصر اور اتمام کا اعتبار سفر کے آخری وقت کے حساب سے ہوگا


سوال

 ایک شخص شرعی مسافر ہے وہ اپنے گاؤں/ قصبہ میں جس وقت واپس پہنچتا ہے غروب آفتاب کا وقت ہو رہا ہے،مگر ابھی اپنے قصبہ میں پہنچا،لیکن گھر نہیں پہنچا اور گھر پہنچنے تک مغرب کا وقت ہوجاتا ہے،تو کیا اس صورت میں وہ نمازِ عصر مکمل قضاء کرے گا یا قصر قضاء کرے گا ؟ کیوں کہ اس پر مکمل نماز مکروہ وقت میں لازم ہوئی ہے جوکہ غروب آفتاب کے قریب قریب کا وقت تھا،اب اس کے لیے کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ نماز کا وقت ختم ہونے کے دوران آدمی  جس حالت میں ہوگا،اسی حالت کا اعتبار ہوگا، یعنی مثلاً:عصر کی نماز کا وقت جب ختم ہورہا ہو تو اس وقت اگر کوئی مقیم ہو تو چار رکعت نماز ذمے  میں لازم ہوں گی اور اگر مسافر ہو تو دو رکعت ذمہ میں لازم ہوں گی۔

لہٰذا اگر کوئی اپنے گاؤں میں عصر کی نماز کے آخری وقت میں داخل ہوگیا،چاہے وہ اپنے گھر پہنچ گیا ہو یا نہ پہنچا ہو،وہ مقیم شمار ہوگا اور اگر اس  نے عصر کی نماز نہیں پڑھی اور عصر کا وقت ختم ہوگیاتو وہ عصر کی نماز مکمل ( چار رکعات ) قضاء کرے گا،اگرچہ عصر کی نماز ( تاخیر کی وجہ سے ) مکروہ وقت میں اس پر  لازم ہوگئی تھی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت) وهو قدر ما يسع التحريمة (فإن كان) المكلف (في آخره مسافراً وجب ركعتان وإلا فأربع) ؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله.
(قوله والمعتبر في تغيير الفرض) أي من قصر إلى إتمام وبالعكس (قوله وهو) أي آخر الوقت قدر ما يسع التحريمة، كذا في الشرنبلالية والبحر والنهر، والذي في شرح المنية تفسيره بما لا يبقى منه قدر ما يسع التحريمة، وعند زفر بما لا يسع فيه أداء الصلاة، (قوله وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيماً وقوله: وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافراً بأن كان مقيماً في آخره فالواجب أربع".

(‌‌‌‌كتاب الصلاة،باب صلاة المسافر،ج:2،ص:131،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: لأدائه كما وجب)؛ لأن السبب هو الجزء الذي يتصل به الأداء، وهو هنا ناقص فقد وجب ناقصًا فيؤدى كذلك. وأما عصر أمسه فقد وجب كاملًا؛ لأن السبب فيه جميع الوقت حيث لم يحصل الأداء في جزء منه، لكن الصحيح الذي عليه المحققون أنه لا نقصان في ذلك الجزء نفسه بل في الأداء فيه لما فيه من التشبه بعبدة الشمس، ولما كان الأداء واجبًا فيه تحمل ذلك النقصان، أما إذا لم يؤد فيه والحال أنه لا نقص في الوقت أصلًا وجب الكامل، ولهذا كان الصحيح وجوب القضاء في كامل على من بلغ وأسلم في ناقص ولم يصل فيه كما تقدم. والحاصل كما في الفتح أن معنى نقصان الوقت نقصان ما اتصل به فعل الأركان المستلزم للتشبه بالكفار."

 (‌‌كتاب الصلاة،ج:1،ص:372،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں