بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں مکمل سورت پڑھنا افضل ہے یا بڑی سورت کا بعض حصہ؟


سوال

نماز میں کسی بڑی سورت کا کچھ حصہ پڑھنا کیسا ہے؟ جیسے ائمہ حضرات اکثر فجر کے وقت تو بڑی سورت کے درمیان میں سے کوئی رکوع پڑھ لیتے ہیں اور باقی نمازوں میں اکثر بڑی سورتوں کے آخری چند آیات ایک رکعات میں ایک سورت کے اور دوسری رکعات میں کسی دوسری سورت کے پڑھتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ یا اس سے بہتر طریقہ کیا ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  مسنون مقدار کے بقدرکسی بڑی سورت کا بعض حصہ ایک رکعت میں پڑھنا جائز ہے۔ تاہم دونوں رکعتوں میں کسی ایک ہی سورت کا بعض حصہ پڑھنا الگ الگ سورتوں کے بعض حصے کو الگ الگ رکعت میں پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے۔ اور اگر بڑی سورت کے جس  حصے کو پڑھنے کا ارادہ ہو، اس کی آیات اور کسی  مختصر سورت کی آیات کی مقدار برابر ہو تو مکمل مختصر سورت پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ اور اگر سورت کے بعض حصے کی آیات کی مقدار  (جس کے پڑھنے کا ارادہ ہے)،  مختصر مکمل سورت کی آیات سے زیادہ ہوتو  زیادہ مقدار میں بڑی سورت کے بعض حصے کو پڑھنا زیادہ  افضل ہے۔

"زاد المعاد" میں ہے کہ پوری سورت ایک رکعت میں پڑھنا سب سے افضل ہے، پھر سورت کی آخری آیات پڑھنا، پھر سورت کی ابتدا یا درمیان سے پڑھنا۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (1 / 304):

"و الأفضل أن يقرأ في كل ركعة بفاتحة الكتاب وسورة تامة.

ولو قرأ بعض السورة في ركعة والبعض في ركعة أخرى، بعض مشايخنا رحمهم الله قالوا يكره؛ لأنه خلاف ما جاء به الأثر، وذكر عيسى بن أبان رحمه الله في كتاب الحج أنه لا يكره، وروي ذلك عن أصحابنا رحمهم الله، وروى حديثاً بإسناد له عن ابن مسعود رضي الله عنه: أنه قرأ في صلاة الفجر سورة بني إسرائيل، فلما بلغ أنهى التلاوة ركع وسجد، ثم قام إلى الثانية وختم السورة.

ولو قرأ في الركعتين من وسط (سورة) أو من آخر سورة، فلا بأس به، ولو قرأ في الركعة الأولى من وسط سورة أو من آخر سورة وقرأ في الركعة الأخرى من وسط سورة أخرى أو من آخر سورة، فلا ينبغي أن يفعل ذلك على ما هو ظاهر الرواية، ولكن لو فعل لا بأس به، هكذا حكي عن الفقيه أبي جعفر رحمه الله ذكره شيخ الإسلام رحمه الله في «شرحه» في نسخة شمس الأئمة رحمه الله قال بعضهم: يكره وقال بعضهم: لا يكره.

وفي «الفتاوى» : سئل عن القراءة في الركعتين من آخر السورة أفضل أم قراءة سورة بتمامها؟ قال: إن كان آخر السورة أكثر آية من سورة التي أراد قراءتها كان قراءة آخر السورة أفضل، وإن كانت السورة أكثر فهي أفضل، ولكن ينبغي أن يقرأ في الركعتين آخر سورة واحدة، ولا ينبغي أن يقرأ في كل ركعة آخر سورة على حدة، قال ذلك مكروه عند أكثرهم، هكذا ذكر في «فتاوى أبي الليث» .

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں