بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امامت کی اہلیت


سوال

ہماری مسجد میں امام صاحب اکثر نئے نئے بچوں کو مدرسہ سے بھیج دیتے ہیں نماز پڑھانے  کے لیے جو کہ بالغ ہوتے ہیں،  مگر حافظ نہیں ہوتے، ہم ان کو اور ان کے کردار کو نہیں جانتے،ان کی اقتدا میں محلہ دار حافظ صاحبان بھی نماز پڑھتے ہیں ،کبھی عالم بھی اقتدا میں آ جاتے ہیں ،مگر ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ جو لڑکا نماز پڑھا رہا ہے ،وہ عالم اور حافظ ہے بھی کہ نہیں ،کیا ہماری نمازہوجاتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ امام کے لیے عالم حافظ ہونا ضروری نہیں ہے، البتہ  امامت کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل بالغ ہو ،صحیح العقیدہ ہو ،قرآن شریف صحیح پڑھتا ہو ،نماز کے ضروری احکام سے واقف ہو ۔

صورتِ مسئولہ میں اگر امام صاحب مدرسہ کے جن طلبہ  کو نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں بھیج دیتے ہیں  اور ان  میں مذکورہ اوصاف  اور  شرائط   پائی جاتی  ہوں تو ایسی صورت میں  ان کی اقتدا  کرنا درست  ہے ۔

الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے :

"(‌و الأحق ‌بالإمامة الأعلم بأحكام الصلاة فقط صحة و فسادًا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. و التقوى: اتقاء المحرمات)."

(باب الامامة،ج:1ص:76،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"الأولى بالإمامة أعلمهم بأحكام الصلاة. هكذا في المضمرات وهو الظاهر. هكذا في البحر الرائق هذا إذا علم من القراءة قدر ما تقوم به سنة القراءة هكذا في التبيين ولم يطعن في دينه. كذا في الكفاية وهكذا في النهايةويجتنب الفواحش الظاهرة."

( باب في الإمامة،‌‌الفصل الثاني في بيان من هو أحق بالإمامة،ج:1،ص:83،ط:دار الفکر بیروت )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307101255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں