بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں غیر محرم کو دیکھنے کی وجہ سے نماز کے فساد کا حکم


سوال

نماز میں غیر محرم عورت کو دیکھنے سے نماز فاسد ہے یا نہیں؟

جواب

جان بوجھ کر غیر محرم عورتوں کو دیکھنا گناہ کبیرہ ہے چاہے نماز کے اندر ہو یا نماز سے باہر، احادیثِ مبارکہ میں اس کو آنکھوں کا زنا قرار دیا گیا ہے اور ایسے شخص پرلعنت آئی ہے،یعنی رحمتِ خداوندی سے محرومی کا فیصلہ وارد ہواہے۔اگر اچانک کسی غیر محرم پرنظر پڑجائے تو فوراً اپنی نگاہ پھیر دینی چاہیے،مسلم شریف کی روایت میں ہے:

’’حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑجانے کے بارے میں دریافت کیا،(یعنی اچانک کسی نامحرم عورت پر نظر پڑجائے تومجھے کیاکرناچاہیے؟) تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے مجھے حکم دیاکہ میں اُدھرسے نگاہ پھیرلوں۔‘‘

لہٰذا جب  عام حالت میں بھی غیر محرم کو دیکھنا  گناہ ہے تو  نماز کے اندر غیر محرم کو دیکھنا اور بھی زیادہ گناہ کا باعث ہوگا، اس  لیے نماز کے اندر عام حالت سے زیادہ احتیاط کرنی چاہیے، لیکن نماز کے اندر غلطی سے یا جان بوجھ کر غیر محرم کو دیکھنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے اور  نہ ہی وضو ٹوٹتا ہے، کیوں کہ غیر محرم کو دیکھنا مفسداتِ صلاۃ یا نواقضِ وضو میں سے نہیں ہے، البتہ اگر غیر محرم کو دیکھنے سے شہوت کے جذبات پیدا ہوں اور  مذی کے قطرے یا ایک قطرہ نکل آئے تو اس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے گا اور وضو ٹوٹنے کی وجہ سے نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔

رياض الصالحين (2 / 228):

"باب تحريم النظر إِلَى المرأة الأجنبية والأمرد الحسن لغير حاجة شرعية:

قَالَ الله تَعَالَى: { قُلْ لِلمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أبْصَارِهِمْ } [ النور : 30 ] ، وقال تَعَالَى : { إنَّ السَّمْعَ وَالبَصَرَ والفُؤادَ كُلُّ أُولئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولاً } [ الإسراء : 36 ]، وقال تَعَالَى: { يَعْلَمُ خَائِنةَ الأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ } [ غافر : 19 ] ، وقال تَعَالَى : { إنَّ رَبكَ لَبِالمِرْصَادِ } [ الفجر : 14 ].
(3) وعن أَبي هريرة - رضي الله عنه - : أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم، قَالَ : (( كُتِبَ عَلَى ابْن آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِكُ ذَلِكَ لا مَحَالَةَ : العَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ ، وَالأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الاسْتِمَاعُ، وَاللِّسَانُ زِناهُ الكَلاَمُ، وَاليَدُ زِنَاهَا البَطْشُ، وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الخُطَا، والقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى، وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الفَرْجُ أَوْ يُكَذِّبُهُ )). متفق عَلَيْهِ. هَذَا لفظ مسلمٍ".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 119):

"(أَن يُؤْدم بَيْنكُمَا) أَي: أَحْرَى أَن تدوم الْمَوَدَّة بَيْنكُمَا؛ وَأَجَابُوا عَن حَدِيث عَليّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، بِأَن النّظر فِيهِ لغير الْخطْبَة، فَذَلِك حرَام، وَأما إِذا كَانَ للخطبة فَلَا يمْنَع مِنْهُ لِأَنَّهُ للْحَاجة". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 134):

"(وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتاداً أو لا، من السبيلين أو لا".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 165):

"(لا) عند (مذي أو ودي) بل الوضوء منه ومن البول جميعا على الظاهر.

(قوله: لا عند مذي) أي لايفرض الغسل عند خروج مذي كظبي بمعجمة ساكنة وياء مخففة على الأفصح، وفيه الكسر مع التخفيف والتشديد، وقيل: هما لحن ماء رقيق أبيض يخرج عند الشهوة لا بها، وهو في النساء أغلب، قيل: هو منهن يسمى القذى بمفتوحتين نهر". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200816

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں