بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں اعراب کی غلطی کے بعد اس کی اصلاح کرلینا


سوال

اگر نماز میں ایسی اعرابی غلطی ہوجاۓ کہ اس سے معنی بدل جاۓ  تو اس سے نماز فاسد ہو جاتی  ہے کہ نہیں  جیسے قرأت کرتے ہوۓ امام صاحب نے "فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ" میں "الرسول" پہ ضمہ دیا اور رکوع کیا ، پھر دوسری رکعت میں اسے درست پڑھا تو اس سے نماز فاسد ہوئی کہ نہیں؟

جواب

 نماز میں   قرآن مجید  کی تلاوت  کے دوران اگر  غلطی سے  کسی لفظ کا اعراب اس طرح  غلط پڑھ لیا جائے کہ اس سے  معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اور غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) تو  متقدمین فقہاء کرام کے نزدیک  نماز فاسد ہوجاتی ہے، البتہ متاخرین  اس طرح  کی اعراب کی غلطیوں میں توسّع  دیتے ہیں اور نماز کے فاسد نہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں؛ اس لیے لوگ  خصوصا اہل عجم   اعراب میں فرق نہیں کرپاتے، متقدمین کا قول احوط ہے؛ اس لیے ایسی صورت میں نماز کا اعادہ کرلینا چاہیے۔ تاہم اگر  نماز میں اسی رکعت میں  اس غلطی کی اصلاح  کرلی جائے تو  بالاتفاق نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن اگر اس  نماز میں یا اسی رکعت  میں غلطی کی اصلاح نہیں کی بلکہ دوسری رکعت میں غلطی کی اصلاح کی تو نماز درست نہیں ہوگی۔

 صورت مسئولہ میں امام صاحب نے "فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ" میں "الرسول" پہ ضمہ دیا اور رکوع کرلیا ، پھر دوسری رکعت میں اسے درست پڑھا تو اس صورت میں اس نماز کا اعادہ کرلیا جائے

فتاوئ ہندیہ میں ہے:

"(ومنها اللحن في الإعراب) إذا لحن في الإعراب لحنا لا يغير المعنى بأن قرأ لا ترفعوا أصواتكم برفع التاء لا تفسد صلاته بالإجماع وإن غير المعنى تغييرا فاحشا بأن قرأ وعصى آدم ربه بنصب الميم ورفع الرب وما أشبه ذلك مما لو تعمد به يكفر. إذا قرأ خطأ فسدت صلاته في قول المتقدمين واختلف المتأخرون: قال محمد بن مقاتل وأبو نصر محمد بن سلام وأبو بكر بن سعيد البلخي والفقيه أبو جعفر الهندواني وأبو بكر محمد بن الفضل والشيخ الإمام الزاهد وشمس الأئمة الحلواني لا تفسد صلاته. وما قاله المتقدمون أحوط؛ لأنه لو تعمد يكون كفرا وما يكون كفرا لا يكون من القرآن وما قاله المتأخرون أوسع؛ لأن الناس لا يميزون بين إعراب وإعراب. كذا في فتاوى قاضي خان وهو الأشبه. كذا في المحيط وبه يفتى. كذا في العتابية وهكذا في الظهيرية."

(1 / 81، كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الخامس في زلة القارئ، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ومنها زلة القارئ  فلو في إعراب أو تخفيف مشدد وعكسه، أو بزيادة حرف  فأكثر نحو الصراط الذين، أو بوصل حرف بكلمة نحو إياك نعبد، أو بوقف وابتداء لم تفسد وإن غير المعنى به يفتى بزازية.

وفي الرد: فنقول: إن الخطأ إما في الإعراب أي الحركات والسكون ويدخل فيه تخفيف المشدد وقصر الممدود وعكسهما أو في الحروف بوضع حرف مكان آخر، أو زيادته أو نقصه  أو تقديمه أو تأخيره أو في الكلمات أو في الجمل كذلك أو في الوقف ومقابله. والقاعدة عند المتقدمين أن ما غير المعنى تغييرا يكون اعتقاده كفرا يفسد في جميع ذلك، سواء كان في القرآن أو لا إلا ما كان من تبديل الجمل مفصولا بوقف تام وإن لم يكن التغيير كذلك، فإن لم يكن مثله في القرآن والمعنى بعيد متغير تغيرا فاحشا يفسد أيضا كهذا الغبار مكان هذا الغراب.

وكذا إذا لم يكن مثله في القرآن ولا معنى له كالسرائل باللام مكان السرائر، وإن كان مثله في القرآن والمعنى بعيد ولم يكن متغيرا فاحشا تفسد أيضا عند أبي حنيفة ومحمد، وهو الأحوط. وقال بعض المشايخ: لا تفسد لعموم البلوى، وهو قول أبي يوسف وإن لم يكن مثله في القرآن ولكن لم يتغير به المعنى نحو قيامين مكان قوامين فالخلاف على العكس فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغير المعنى كثيرا وجود المثل في القرآن عنده والموافقة في المعنى عندهما، فهذه قواعد الأئمة المتقدمين. وأما المتأخرون كابن مقاتل وابن سلام وإسماعيل الزاهد وأبي بكر البلخي والهندواني وابن الفضل والحلواني، فاتفقوا على أن الخطأ في الإعراب لا يفسد مطلقا ولو اعتقاده كفرا لأن أكثر الناس لا يميزون بين وجوه الإعراب. قال قاضي خان: وما قال المتأخرون أوسع، وما قاله المتقدمون أحوط."

(1 / 630، کتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة...الخ، ط: سعید)

امداد الفتاوی میں ہے:

’’سوال 225: اگر کسے ”اما من ثقلت موازینه فامه هاویه“  خواندہ فی الفور صحیحش نمودہ  نماز ادا  کرد، نمازش صحیحش  باشد یا نہ؟

جواب:  "في العالمگیریة: ذكر في الفوائد لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش ثم رجع وقرأ صحيحاً، قال: عندي صلاته جائزة، وكذلك الإعراب" ، قلت وکذا سمعت شیخي مولانا محمد یعقوب ؒ ، پس بنا علیہ ایں کس نماز صحیح باشد۔“

(1/168،  باب القرأت ، مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100751

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں