بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں اللہ تعالیٰ کا تصور کرنے کا حکم


سوال

 میں جب نماز میں کھڑا ہوتا ہوں میری نیت یہ ہوتی ہے کہ میں اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں۔ اور سجدہ کرتے وقت میں بڑی محبت سے یہ تصور کرتا ہوں کہ میں اپنے اللّٰہ کے آگے سجدہ کررہا ہوں۔ جیسا کہ حکم ہے، نماز کے وقت قبلہ رخ ہونا لازمی ہے۔ لیکن نیت باندھ دینے کے بعد قبلے کا خیال سلام پھیرنے تک میرے ذہن میں نہیں آتا، اگر آتا ہے تو یہی کہ میں اللّٰہ کے آگے کھڑا ہوں۔ لیکن میرے سامنے اللّٰہ تعالیٰ کا وجود ظاہر ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ لازم ہے کہ آپ جس ذات کو خیال میں لائیں گے تو اس کا وجود تو کوئی نہ کوئی ذہن میں آئے گا۔ میں نے اہلِ علم سے یہ سنا ہے کہ ایسا کوئی عمل نہ ہونے پائے جس سے اللّٰہ تعالیٰ کا وجود (ہاتھ، پاؤں، چہرہ۔ ۔ ) ظاہر ہو۔ تو آپ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ یہ جو وجود ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے کیا میں گناہ گار تو نہیں ہوتا؟ اگر نہیں ہوتا تو پھر ذہن میں کیا وجود ظاہر ہونا چاہیے؟

جواب

اللہ تعالی کی ذات وراء الوریٰ ہے، چناں چہ اللہ تعالی کی ذات میں غور و فکر کرنا منع ہے؛اللہ تعالی خالق ہیں اور ان کی ذات لا محدود ہے اور وہ ہماری طرح کے جسم، اعضاء اور ہر طرح کی حدود وقیود  اور  عیوب  سے پاک ہیں،  اس لیے مخلوق اس کی ذات اور حقیقت کا ادراک کرنے سے عاجز ہے، البتہ اللہ تعالی کی صفات  (مثلاً قدرت، رحمت، ازلیت،قیومیت،خالقیت، حکمت،غلبہ، ربوبیت وغیرہ)  اور مظاہرِ قدرت میں غور  و  فکر کرنا چاہیے، اس سے دل میں اللہ تعالی کا دھیان پیوست ہو جائے گا، نعمتوں کا احساس ہوکر شکر کی کیفیت پیدا ہوگی، قدرت پر ایمان بڑھے گا، اہل اللہ نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے دھیان کے لیے دو نسخے تجویز فرمائے ہیں: اللہ تعالیٰ کی ذات کا ذکر اور اللہ تعالیٰ کی صفات اور نظائرِ قدرت میں غور وفکر۔  قرآن مجید میں خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیوں اور مصنوعات میں غور وفکر کا جابجا حکم دیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:

﴿ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ [آلِ عمران:190،191]

ترجمہ: بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں، اور رات دن کے آنے جانے میں بڑی نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے، وہ لوگ جو  اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے (ہرحال میں)، اور غور وفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، (اور غور وفکر کے نتیجے میں کہتے ہیں:) اے ہمارے رب آپ نے یہ (سب) بے فائدہ پیدا نہیں کیا، پاک ہے آپ کی ذات، سو ہمیں بچادیجیے جہنم کے عذاب سے۔

لہٰذا نماز  میں بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کا تصور کرنے  کے بجائے اللہ تعالیٰ کی صفات میں غور کرنے کے  ساتھ ساتھ نماز میں کی جانے والی تلاوت اور ذکر وغیرہ کی طرف دھیان جمایا جائے؛ کیوں کہ قرآن پاک کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم پر مشتمل ذکر کی طرف دھیان دینا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کے حکم میں ہی ہے، باقی پوری نماز کے ہر رکن میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا تصور کیے بغیر اس بات کا دھیان جمانا  چاہیے کہ  میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں  اور اللہ تعالیٰ میری نماز کو دیکھ رہے ہیں کہ میں کیسے نماز پڑھ رہا ہوں۔

حدیثِ پاک میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ "احسان" یہ ہے کہ  تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو، جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو۔۔۔ الخ"  اس کا مطلب یہی ہے کہ  عبادت کرنے والا اتنی توجہ، دھیان اور خلوص سے عبادت کرے گویا کہ وہ اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے، یعنی حقیقت میں تو نہیں دیکھ رہا، نہ ہی دنیا کے دائرے میں رہتے ہوئے ان فانی نگاہوں سے دیکھ سکتاہے، بلکہ یہ سوچے کہ گویا اگر وہ اللہ تعالیٰ کو  دیکھ  سکتا تو اس کی توجہ و استحضار  اور ایمان کس  کامل درجے کا ہوتا!!  بس اتنی ہی توجہ و دھیان سے نماز پڑھے، اور اگر یہ نہیں کرسکتا تو یہ تصور  ہو کہ "اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں یا اللہ تعالیٰ  مجھے دیکھ رہے ہیں"، اور اس تصور کے  لیے جسم کا تصور لازم نہیں ہے، جیساکہ آپ نے سوچ اور سمجھ لیا ہے، بلکہ یہ تصور بلا جسم و حدود کے بھی باندھا جاسکتاہے۔

الرسالة القشيرية (ص: 87، بترقيم الشاملة آليا):

"أخبرنا أبو نعيم عبد الملك بن الحسن بن محمد بن اسحق، قال: حدثنا أبو عوانة يعقوب بن اسحق، قال: حدثنا يوسف بن سعيد بن مسلم، قال: حدثنا خالد بن يزيد قال: حدثنا إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس بن أبي حازم؛ عن جرير بن عبد الله البجلي، قال: " جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في صورة رجل، فقال: يا محمد، ما الإيمان؟ قال: أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه، ورسله، والقدر: خيره وشرّه، وحلوه ومرّه. قال: صدقت. قال: فتعجبنا من تصديقه النبي صلى الله عليه وسلم وهو يسأله ويصدقه، قال: فأخبرني ما الإسلام؟ قال: الإسلام أن تقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحجّ البيت. قال: صدقت. قال فأخبرني ما الإحسان؟ قال: الإحسان: " أن تعبد الله كأنّك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك. قال صدقت.. " الحديث.
قال الشيخ: هذا الذي قاله صلى الله عليه وسلم: " فإن لم تكن تراه فإنه يراك " إشارة إلى حال المراقبة، لأنّ المراقبة، علم العبد باطلاع الرب سبحانه عليه، فاستدامته لهذا العلم مراقبة لربه، وهذا أصل كل خير له".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 60):

’’ قال: (أن تعبد الله) ] ، أي: توحده، وتطيعه في أوامره، وزواجره. وفي رواية: أن تخشى الله، ومآلهما واحد؛ لأن العبادة أثر الخشية، وهي منتجة للعبادة، وهي الطاعة مع الخضوع والمذلة. قال الراغب: العبادة فعل اختياري مناف للشهوات البدنية تصدر عن نية يراد بها التقرب إلى الله تعالى طاعة للشريعة. وقال بعض المحققين: وهي الغاية القصوى من إبداع الخلق، وإرسال الرسل. وكلما ازداد العبد معرفة ازداد عبودية، ولذا خص الأنبياء، وأولو العزم بخصائص في العبادة، ولا ينفك العبد عنها ما دام حيا بل في البرزخ عليه عبودية أخرى لما سأله الملكان عن ربه، ودينه، ونبيه، وفي القيامة يوم يكشف عن ساق، ويدعون إلى السجود، وإذا دخل الجنة كانت عبوديته سبحانك اللهم مقرونا بأنفاسه، وفي كلام الصوفية: أن العبادة حفظ الحدود والوفاء بالعهود، وقطع العلائق والشركاء عن شرك، والفناء عن مشاهدتك في مشاهدة الحق، وله ثلاث مراتب لأنه إما أن يعبده رهبة من العقاب ورغبة في الثواب، وهو المسمى بالعبادة، وهذه لمن له علم اليقين. أو يعبده تشوقا لعبادته وقبول تكاليفه، وتسمى بالعبودية، وهذه لمن له عين اليقين، أو يعبده لكونه إلها وكونه عبدا، والإلهية توجب العبودية، وتسمى بالعبودة، وهذه لمن له حق اليقين، والشرك رؤية ضر، أو نفع مما سواه، وإثبات وجود غير الله ذاتا، أو صفة، أو فعلا [ (كأنك تراه) ] : مفعول مطلق أي: عبادة شبيهة بعبادتك حين تراه، أو حال من الفاعل أي: حال كونك مشبها بمن ينظر إلى الله خوفا منه وحياء، وخضوعا، وخشوعا، وأدبا، وصفاء، ووفاء، وهذا من جوامع الكلم، فإن العبد إن قام بين يدي مولاه لم يترك شيئا مما قدر عليه من إحسان العمل، ولا يلتفت إلى ما سواه، وهذا المعنى موجود في عبادة العبد مع عدم رؤيته، فينبغي أن يعمل بمقتضاه إذ لا يخفى أن من يرى من يعمل له العمل يعمل له أحسن ما يمكن عمله، ولا شك أن ذلك التحسين لرؤية المعمول له العامل حتى لو كان العامل يعلم أن المعمول له ينظر إليه من حيث لا يراه يجتهد في إحسانه العمل أيضا، ولذا قال: [(فإن لم تكن تراه) ] أي: تعامله معاملة من تراه [ (فإنه يراك) ] أي: فعامل معاملة من يراك، أو فأحسن في عملك فإنه يراك. وفي رواية: فإن لم تره أي: بأن غفلت عن تلك المشاهدة المحصلة لغاية الكمال فلا تغفل عما يجعل لك أصل الكمال، فإن ما لا يدرك كله لا يترك جله. بل استمر على إحسان العبادة مهما أمكن فإنه يراك أي: دائما، فاستحضر ذلك لتستحيي منه حتى لا تغفل عن مراقبته، ولا تقصر في إحسان طاعته ; وحاصل الكلام فإن لم تكن تراه مثل الرؤية المعنوية فلا تغفل فإنه يراك ... فالصواب أن يقال: وهو يراك ; وحاصل جميع الأقوال الحث على الإخلاص في الأعمال، ومراقبة العبد ربه في جميع الأحوال. قال بعض العارفين: الأول إشارة إلى مقام المكاشفة، ومعناه إخلاص العبودية، ورؤية الغير بنعت إدراك القلب عيان جلال ذات الحق، وفنائه عن الرسوم فيه. والثاني إلى مقام المراقبة في الإجلال، وحصول الحياء من العلم باطلاع ذي الجلال. قيل: المعنى فإن لم تكن بأن تكون فانيا تراه باقيا فإنه يراك في كل حال من غير نقصان وزوال ۔۔۔۔۔۔وجاز حذف الفاء من الجملة الاسمية الواقعة موقع الجزاء، والمعنى أن تعبد الله في حال شعورك بوجودك لقوله تعالى: {واعبد ربك حتى يأتيك اليقين} [الحجر: 99] أي: الموت بإجماع المفسرين، فإذا فنيت، و متّ موتا حقيقيا تراه رؤية حقيقية، وترتفع العبادات التكليفية والتكلفية، وإذا مت موتا مجازيا، ودخلت في حال الفناء، وبقيت في مقام البقاء تراه رؤية مشاهدة غيبية تسقط عنك ثقل العبادات البدنية، أو نفس الأعمال الظاهرية عند غلبات الجذبات الباطنية. وقوله: فإنه يراك متعلق بالكلام السابق، وإن كان له تعلق ما أيضا باللاحق، وإنما أطنبت في المقام لتخطئة بعض الشراح في ذلك الكلام.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں