بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے


سوال

نماز کی نیت کے بارے میں مجھے حال ہی میں بہت وضاحت کے ساتھ سمجھنے کا موقع ملا، میں بچپن میں نماز پڑھتا تھا تو نیت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، پھر تھوڑا سا بڑا ہوگیا تو نیت ان الفاظ سے کرنے لگا،إنی وجھت وجھی... الخ۔ میں مذکورہ نیت کو جماعت و منفرد غرض ہر نماز میں کرتا آیا ہوں اور اب حال ہی میں علم ہوا کہ امام کی اقتدا  کی نیت کرنا بھی ضروری ہے تو اب الحمدللہ ایسا ہی کرتا ہوں۔

۱: اب سوال یہ ہے کہ جو نمازیں میں نے جماعت کے ساتھ ادا تو کیں لیکن لا علمی کے سبب امام کی اقتدا  کی نیت نہیں کی تو ان نمازوں کو دہرانا لازمی ہے؟

۲: کیا درج ذیل الفاظ میں نیت کرنا قابل اطمینان ہے؟ مثلاً پیشِ امام کی اقتدا  میں نمازِ فجر ادا کرتا ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ نیت کرنا نمازکی شرائط میں داخل ہے اور کسی بھی نماز کے لئے  دل میں اس کی  نیت کا ہونا کا فی ہے ،زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا شرعاًضروری  نہیں ہے،بلکہ بہتر ہے۔

1۔لہذا گزشتہ نمازوں  کی نیت سے متعلق اگر آپ کو یہ معلوم تھا کہ آپ امام کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں،تو آپ کی نمازیں  ہوگئیں،شریعت میں اسی کو نیت کہتے ہیں،زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔

2۔نیت صرف دل سے ارادہ کرلینے کا نام ہے، زبان سے نیت کے الفاظ اداکرنا ضروری نہیں ہے،اگر آپ کو معلوم ہے کہ آپ کون سی نماز ادا کر رہے ہیں؟کتنی رکعات پڑھ رہے ہیں؟تنہا پڑھ رہے ہیں یا امام کی اقتدا میں؟ تو آپ کی نیت ہوگئی۔اور اسی قدر نیت نماز کی درستگی کے لیے کافی ہے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكفيه اللسان مجتبى (وهو) أي عمل القلب (أن يعلم) عند الإرادة (بداهة) بلا تأمل (أي صلاة يصلي) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز.

(والتلفظ) عند الإرادة (بها مستحب) هو المختار.

(وجاز تقديمها على التكبيرة) ولو قبل الوقت: وفي البدائع: خرج من منزله يريد الجماعة فلما انتهى إلى الإمام كبر ولم تحضره النية جاز،(ما يوجد) بينهما (قاطعا من عمل غير لائق بصلاة) وهو كل ما يمنع البناء. (قوله وهو كل ما يمنع البناء) أي يمنع الذي سبقه الحدث من البناء على ما صلى احترازا عن المشي والوضوء."

(کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلاۃ،ج1،ص415،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101998

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں