بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں پائنچے موڑنے کاحکم


سوال

میرے ایک ساتھی   ڈیوٹی کے کپڑوں میں نماز پڑھ رہے تھے  اور انہوں نے پینٹ فولڈ کی تھی تاکہ ٹخنے نظر آسکیں تو امام صاحب نے ان سے کہا آپ فولڈ کرکے نماز نہیں پڑھ سکتے، یہ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں،  حدیث ہے لیکن وہ ہر وقت  کے لیے ہے کہ ٹخنے  کھلے  رکھنے  چاہییں  مرد  کے لیے ۔اس کی وضاحت فرمائیں !

جواب

ٹخنوں کو ڈھانکنا نماز اور غیر نماز ہر حال میں ممنوع ہے، اور نماز میں اس کی حرمت مزید شدید ہوجاتی ہے،  لہذا ایسا لباس ہی نہ بنایا جائے جس میں ٹخنے ڈھکتے ہوں، فقہاءِ کرام نے ایسا لباس سلوانے کو مکروہ لکھا ہے  جس میں مرد کے ٹخنے چھپ جاتے ہوں۔اور ایسا لباس ہونے کی صورت میں  نماز شروع کرنے سے پہلےشلوار یا پینٹ وغیرہ کو اوپر  سے موڑ لینا چاہیے، ورنہ کم ازکم نیچے سے موڑلے۔ اس طرح کرنے سے اس گناہ سے نجات مل جائے گی جو شلوار وغیرہ کو نماز کے اندر ایسے ہی چھوڑ دینے سے ہوتا۔

نیز احادیثِ مبارکہ میں مرد کے لیے ٹخنے چھپانے کی ممانعت مطلقًا بھی وارد ہوئی ہے، اور نماز کی حالت میں بھی، اولًا تو جن احادیث میں مطلق منع کیا گیا ہے، ان میں نماز اور نماز سے باہر دونوں حالتیں داخل ہیں، لہٰذا ان احادیث کی رو سے بھی ہر وقت ہی مردوں کو ٹخنے کھلے رکھنے چاہییں، جب کہ نماز میں ٹخنے چھپانے پر مستقل وعید بھی وارد ہوئی ہے۔

جو حضرات نماز میں شلوار یا پینٹ وغیرہ موڑنے سے منع کرتے ہیں اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں، لیکن دونوں کے سمجھنے میں غلط فہمی معلوم ہوتی ہے:

1۔ایک حدیث شریف میں نماز میں کپڑوں کے سمیٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن حدیث میں وارد ممانعت کا تعلق غیر ضروری طور پر یا مٹی سے بچنے کے لیے نماز کے دوران کپڑے سمیٹنے سے ہے۔ نماز سے پہلے  یا نماز کے دوران ایک حکم شرعی کو ادا کرنے کے لیے (یعنی ٹخنوں کو کھلا رکھنے کے لیے ) کپڑے سمیٹنا اور موڑنا اس حدیث کے مفہوم میں داخل نہیں ہے۔

2۔ فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ ایسے لباس میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے جو لباس مہذب اور شریفانہ مجالس میں نہ پہنا جاسکے، کیوں کہ نمازی اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوتاہے؛ اس لیے اس کا لباس مہذب وشائستہ اور صلحاء کا لباس ہونا چاہیے، جب کہ شلوار یا پینٹ کو نیچے کی جانب سے موڑنے کی صورت میں وضع و ہیئت غیر مہذب ہوجاتی ہے، لہٰذا پاؤں کی جانب سے موڑنے میں کراہت ہوگی۔

لیکن اس کی وضاحت گزشتہ سطور میں ہوچکی کہ فقہاء کرام نے ایسا لباس سلوانا ہی مکروہ قرار دیا ہے جس میں پائنچے ٹخنوں سے نیچے ہوں، سو اولاً: لباس ہی شریعت کے مطابق سلوایا جائے، ثانیاً: شلوار یا پینٹ پاؤں کی جانب سے موڑنے میں لباس کی ہیئت تبدیل ہونے سے جو کراہت آتی ہے وہ کراہتِ تنزیہی ہے، جب کہ ٹخنے ڈھانپنا مکروہ تحریمی  (ناجائز)  ہے؛ لہٰذا اگر کسی کی شلوار وغیرہ لمبی ہو تو  اسے اوپر یا نیچے کی جانب سے موڑ دینا چاہیے، کیوں کہ ٹخنے ڈھکنے کی کراہت تحریمی اور شدید ہے، جو حکم کے اعتبار سے ناجائز ہے، اس کےمقابلے میں شلوار یا پینٹ کو نیچے کی جانب سے فولڈ کرنے کی کراہت کم ہے، اس لیےشلوار یا پینٹ لمبی ہو تو نماز سے پہلے اسے فولڈ کرلینا چاہیے۔

بہرحال حکم یہی ہے کہ اگر کسی کی شلوار یا پینٹ لمبی ہو تو نماز سے پہلے ہی اسے موڑ لینا چاہیے، اور اگر پہلے نہ موڑ سکے یا نماز کے دوران وہ نیچے ہوجائے تو  نماز کے دوران شلوار وغیرہ کو ایک ہاتھ سے ایک ہی دفعہ موڑ لینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔  البتہ دورانِ نماز جھک کر پینٹ یا شلوار وغیرہ پائنتی کی جانب  سے موڑلینا عملِ  کثیر ہے، جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

"إن الله  تعالی لایقبل صلاة رجل مسبل."

 (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء في إسبال الإزار، النسخة الهندیة۲/۵۶۵، بیت الأفکار رقم:۴۰۸۶)

"عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ صلی الله علیه وسلم : ما أسفل من الکعبین  من الإزار في النار."

(صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب ما أسفل من الکعبین ففي النار،۲/۸۶۱، رقم:۵۵۵۹)  

"عن أبي ذر عن النبي صلی الله  علیه وسلم قال: ثلاثة لایکلمهم الله یوم القیامة: المنان الذي لایعطي شیئاً إلامنّه، والمنفق سلعته بالحلف والفاجر، والمسبل إزاره."

(الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم  إسبال الإزار،(1 / 102): رقم:۱۰۶, الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

"و ینبغي أن یکون الإزار فوق الکعبین ..." الخ

 (الفتاوى الهندیة، کتاب الکراهية، الباب التاسع في اللبس، الناشر: دار الفكر,۵/۳۳۳)  

’’مرقاة المفا تیح‘‘ :

"و لایجوز الإسبال تحت الکعبین إن کان للخیلاء، وقد نص الشافعی علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء ؛ لدلالة ظواهر الأحادیث علیها ، فإن کان للخیلاء فهو ممنوع منع تحریم."

(۸/۱۹۸، کتاب اللباس)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں