بعض لوگ نماز میں قرأت کے دوران کچھ الفاظ تبدیل کر کے پڑھتے ہیں مثلاً:مالك یوم الدینکی جگہ مالیك پڑھتے ہیں ،اسی طرحإلى ربك کی جگہ إلى ربیك پڑھتے ہیں ،کیا اس سے نماز ہوجاتی ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں { مالك یوم الدین}کو "مالیك" پڑھنا اور"إلى ربك"کو"ربیك"پڑھنا لحنِ جلی ہونے کی وجہ سےناجائز اور حرام ہے ،تاہم مذکورہ الفاظ کے معنی میں تغیر فاحش نہ ہونے کی وجہ سے اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی،لیکن اس طرح قرأت کو معمول بنانا درست نہیں ہوگا؛ قرانِ کریم کو سیکھ کر اس کے قواعد کا لحاظ کرکے تجوید کے ساتھ عربی لہجے میں پڑھنے کااہتما کیا جانا ضروری ہے ، خصوصًا امام ایسا ہونا چاہیے جو قرآنِ کریم کو تجوید کے قواعد کی رعایت رکھ کر پڑھ سکے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"(و منها) زيادة حرف إن زاد حرفا فإن كان لايغير المعنى لاتفسد صلاته عند عامة المشايخ نحو أن يقرأ وانهى عن المنكر بزيادة الياء. هكذا في الخلاصة."
(ج:۱،ص:۷۹،کتاب الصلوٰۃ،الفصل الخامس فی زلۃ القاری،دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100657
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن