بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے ذریعے ایک صحابی کے چکی چلوانے والے واقعہ کی تحقیق


سوال

ایک صحابی نے نماز کے ذریعے چکی چلوائی ،اِس واقعہ   کی تحقیق مطلوب ہے۔

جواب

مذکورہ واقعہ امام احمد رحمہ اللہ نے "مسند أحمد"میں،امام  ابوبکر بزار رحمہ اللہ نے "مسندُ البزار"میں ، امام طبرانی رحمہ اللہ نے "المعجمُ الأوسط"میں اور حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ نے "مجمعُ الزوائد" میں ذکر کیا ہے،تاہم اس واقعہ  کی تفصیل میں نمازکا ذکر نہیں ملتا،  اس لیے حدیث میں واقعہ کی جس قدر تفصیل مذکورہ ہے ،اُسی قدر تفصیل بیان کرنی چاہیے۔

چنانچہ ’’مسندِ احمد‘‘ میں ہے:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک شخص اپنے گھر والوں کے پاس آئے ،جب انہوں نے دیکھا کہ گھروالےضرورت مند ہیں تو وہ صحراء کی طرف نکل گئے،جب ان کی اہلیہ  نے یہ  دیکھاتو وہ چکی کے پاس گئی اور اس کاپاٹ رکھ دیا، پھرتنور کے پاس گئی اور اُسے گرم کردیا،پھر دعاء کی:اےاللہ!ہمیں روزی عطافرما،تو دیکھاکہ اچانک برتن (آٹے سے) بھر گیا،راوی کہتےہیں:اورپھر تنور کے پاس گئی تو وہ(روٹیوں سے) بھر ا ہوا تھا،روای کہتے ہیں:پھر شوہر واپس آئے،تو (یہ صورت حال دیکھ کر)کہنےلگے:تمہیں میرے بعد(کسی کی طرف سے) کوئی  چیز پہنچی ہے؟اہلیہ نے کہا:جی ہاں،ہمارے رب کی طرف سے(پہنچی ہے)،پھر وہ چکی کے پاس گئے اور اُس کاپاٹ اٹھادیا،(بعد میں) نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس( پورے واقعہ) کاذ کرکیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر وہ چکی کاپاٹ نہ اٹھاتے تو وہ  قیامت تک چلتی رہتی۔"مسندُ البزار"اور"المعجمُ الأوسط"میں بھی یہی واقعہ معمولی فرق کے ساتھ مذکورہے۔

حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ  اللہ  مذکورہ واقعہ کے متعلق لکھتےہیں:"رواه أحمد، والبزّار... ورواه الطبرانيُّ في الأوسط بنحوه، ورجالُهم رجالُ الصحيح غيرَ شيخ البزّار، وشيخ الطبراني، وهما ثقتانِ".(اس واقعہ کو امام احمد اور امام بزار رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے۔۔۔اور امام طبرانی رحمہ اللہ نے "المعجمُ الأوسط"میں اسی جیسے الفاظ سے روایت کیا ہے،اور ان سب  کے رجال صحیح کے رجال ہیں،سوائے امام بزار اور امام طبرانی رحمہما اللہ کے شیوخ کے(وہ دونوں صحیح کے رجال نہیں ہیں)،البتہ وہ دونوں بھی ثقہ ہیں)۔

"مسند أحمد"میں ہے:

" عن أبي هريرة-رضي الله عنه-، قال: دخل رجلٌ على أهله، فلما رأى ما بهم من الحاجة خرج إلى البريّة، فلما رأتْ ذلك امرأتُه قامتْ إلى الرَّحى فوضعتْها، وإلى التنور فسَجَّرتْه، ثم قالتْ: اللهم ارزقنا، فنظرتْ فإذا الجفنةُ قد امتلأتْ، قال: وذهبتْ إلى التنُّور فوجدتْه ممتلئاً، قال: فرجع الزوجُ، قال: أصبتُم بعدي شيئاً؟ قالتْ امرأتُه: نعم من ربِّنا، قام إلى الرَّحى فرفعَها. فذكر ذلك للنبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- فقال: " أما إنه لو لم يرفعْها لم تزلْ تدورُ إلى يوم القيامة".

(مسند أحمد،مسند أبي هريرة، ج:16، ص:384-385، رقم:10658، ط:مؤسسة الرسالة/مسند البزار، مسند ابن عباس، ج:17، ص:311، رقم:10073، ط:مكتبة العلوم والحكم- المدينة المنورة/المعجم الأوسط، باب الميم، من اسمه محمد، ج:5، ص:370، رقم:5588، ط:دار الحرمين-القاهرة)

"مجمعُ الزوائد"میں ہے:

"وعن أبي هريرة-رضي الله عنه- قال: «دخل رجلٌ على أهله، فلما رأى ما بهم من الحاجة خرج إلى البريّة، فلما رأتْ امرأتُه قامتْ إلى الرحا فوضعتْها، وإلى التنور فسَجّرتْه، ثم قالتْ: اللهم ارزُقنا، فنظرتْ فإذا الجفنةُ قد امتلأتْ، قال: وذهبتْ إلى التنور فوجدتْه ممتلئاً، قال: فرجع الزوجُ وقال: أصبتُم بعدي شيئاً؟ قالتُ امرأته: نعم، من ربِّنا، قام إلى الرَّحا فرفعها، فذكر ذلك للنبيِّ - صلّى الله عليه وسلّم - فقال: " أما إنّه لو لم يرفعْها لم تزلْ تدورُ إلى يوم القيامة».رواه أحمدُ والبزّارُ، وقال: «فقالتْ امرأته: اللهم ارزُقنا ما نطحَنُ، وما نعجِنُ ونخبِزُ، فإذا الجفنةُ ملأى خبزاً، والرَّحا تطحنُ، والتنور ملأى جنوب شواء، فجاء زوجُها فقال: عندكم شيءٌ؟ قالتْ: رزقُ الله - أو قد رزقَ اللهُ - فرفعَ الرَّحا، فكنسَ حولَها، فقال رسولُ الله - صلّى الله عليه وسلّم -:" لو تركها لطحنتْ إلى يوم القيامة». ورواه الطبرانيُّ في الأوسط بنحوه، ورجالُهم رجالُ الصحيح غيرَ شيخ البزار وشيخ الطبراني، وهما ثقتانِ".

(كتاب الزهد، باب في من صبر على العيش الشديد ... إلخ، ج:10، ص:256-257، رقم:17873، ط:مكتبة القدسي- القاهرة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308100622

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں