بعض مطابع و مکاتب کی طرف سے نماز سکھانے کا نقشہ شائع ہوتا ہے، جس میں تصاویر کے ذریعے عملی نماز وغیرہ سکھائی جاتی ہے، ان نقشوں پر مصدقہ بنوری ٹاؤن تحریر ہوتا ہے، جب کہ دار العلوم دیوبند و مظاہر العلوم سہارنپور ان نقشوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کو تصاویر میں داخل اور حرام مانتے ہیں، آپ حضرات کا فتویٰ پشت کی طرف سے تصویر کھنچنے کے عدمِ جواز کا ہے، تو پھر مصدقہ بنوری ٹاؤن کا کیا مطلب ہے؟
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی آپ حضرات نے ان نقشوں کو تصویر سے نکال کر اس کو جائز قرار دیا ہے اور اس کی اشاعت کی اجازت مرحمت فرمائی ہے؟ اگر آپ حضرات عدمِ جواز کے فتوٰی سے رجوع کر چکے ہیں تو پھر دیوبند و سہارنپور کے فتاوی ٰکے متعلق آپ حضرات کی کیا رائے ہے اور اگر ان سے اختلاف ہے تو اختلاف کی وجہ کیا ہے؟
واضح رہے کہ جان دار کی تصویر میں اگر اس طرح کا تصرف کردیا جائے کہ دیکھنے کے بعد جان دار کی تصویر معلوم نہ ہوتی ہو (مثلًا تصویر میں سر یا چہرہ مکمل طور پر ہٹا دیا جائے) تو وہ حرام تصویر کے زمرے سے نکل جاتی ہے، لیکن اگر جان دار کی حکایت ہورہی ہو تو وہ پھر بھی حرام تصویر ہی رہتی ہے؛ لہٰذا اس طور پر تصویر بنوانا یا سوشل میڈیا وغیرہ پر لگانا کہ چہرہ سے صرف آنکھیں ہٹادی جائیں تو محض آنکھیں مٹانے سے وہ تصویر سے خارج نہیں ہوتی، کیوں کہ ایسی تصویر سے بھی جاندار کی حکایت ہوتی ہے،لہذا صوررتِ مسئولہ میں جن تصاویر کے ذریعے سے نماز کی عملی مشق سکھائی جاتی ہے اور باقاعدہ انسانی شکل و حرکت کو ظاہر کرتی ہیں، شرعًا وہ تصویر کے حکم میں ہی ہیں، لہذا تمثیلی تصویروں پر مشتمل اس نقشہ کو چھاپنا اور اس کی اشاعت کرنا جائز اوردرست نہیں ہے۔
نیز دار الافتاء نے اس طرح کے کسی بھی نقشے کی تصدیق نہیں کی ہے، اور جامعہ کی رائے جاندار کی تصویر کے بارے میں حسبِ سابق عدمِ جواز ہی ہے۔ سائل یا جس ادارے نے نقشہ پر دارالافتاء کی تصدیق کی خبر دی ہے، وہ تصدیق نامہ کے ساتھ دوبارہ سوال جمع کروائے۔
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: أو مقطوع الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق لها أثر أو يطليه بمغرة ونحوها أو بنحته أو بغسله وإنما لم يكره؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً؛ ولما رواه أحمد عن علي قال «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة فقال: أيكم ينطلق إلى المدينة فلايدع بها وثناً إلا كسره ولا قبراً إلا سواه ولا صورةً إلا لطخها» اهـ.
وأما قطع الرأس عن الجسد مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك ولهذا فسر في الهداية المقطوع بمحو الرأس كذا في النهاية. قيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين. وفي الخلاصة: وكذا لو محى وجه الصورة فهو كقطع الرأس."
(کتاب الصلوٰۃ، باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیھا، ج:2، ص:30، ط: دار الکتاب الاسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"أو مقطوعة الرأس أو الوجه) أو ممحوة عضو لاتعيش بدونه (أو لغير ذي روح لا) يكره؛ لأنها لاتعبد وخبر جبريل مخصوص بغير المهانة كما بسطه ابن الكمال.
(قوله: أو مقطوعة الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي، وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر، أو بطليه بمغرة أو بنحته، أو بغسله لأنها لاتعبد بدون الرأس عادة وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين بحر (قوله: أو ممحوة عضو إلخ) تعميم بعد تخصيص، وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبة البطن مثلاً. والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم وإلا فلا؛ كما لو كان الثقب لوضع عصا تمسك بها كمثل صور الخيال التي يلعب بها لأنها تبقى معه صورة تامة تأمل (قوله: أو لغير ذي روح) لقول ابن عباس للسائل: "فإن كنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس له" رواه الشيخان، ولا فرق في الشجر بين المثمر وغيره خلافاً لمجاهد، بحر."
(کتاب الصلاة، باب مایفسدالصلاة وما یکره فیها، ج:1، ص:648، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101388
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن