بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کی شرائط اور فرائض اور ان کے درمیان فرق


سوال

نماز کےفرائض اور شرائط کتنے ہیں اور ان کے درمیان میں فرق ‎کیا ہے؟

جواب

نماز کی سات شرائط ہیں:

۱۔ بدن کا پاک ہونا۔

۲۔کپڑوں کاپاک ہونا۔

۳۔ جگہ کاپاک ہونا۔

۴۔ ستر کا چھپانا۔

۵۔ نماز کا وقت ہونا۔

۶۔ قبلہ کی طرف رخ کرنا۔

۷۔ نیت کرنا۔ 

اور نماز میں چھ چیزیں فرض ہیں :

۱۔تکبیر تحریمہ، یعنی "اللہ اکبر" کہہ کر نماز شروع کرنا۔

۲۔قیام یعنی کھڑا ہونا،اگر آدمی کھڑے ہونے پر قادر ہو تو بغیر کھڑے ہوئے نماز صحیح نہیں ہوتی ، فرض اور واجب نمازوں میں قیام فرض  ہے۔

۳۔ قراءۃ (تلاوت کرنا)

۴۔رکوع ۔

۵۔سجود ،یعنی سجدہ کرنا ،ہر رکعت میں دومرتبہ فرض ہے۔

۶۔  قعدہ اخیرہ مقدار ِ تشہد، یعنی تشہد پڑھنے کے بقدر قعدۂ اخیرہ میں بیٹھنا۔

نیز شرائط اور اور ارکان  کے درمیان فرق یہ ہے کہ نماز سے پہلے جن چیزو ں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ نماز کی شرائط کہلاتی ہیں اور نماز میں جن چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے انہیں  ارکان کہتے ہیں جب کہ فرائض دونوں کو کہا جاتا ہے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(من فرائضها) ... (التحریمة) ... (ومنها القیام) ... (ومنها القراءۃ) ... (ومنها الرکوع) ... (ومنها السجود) ... (ومنها القعود الأخیر) ... (قدر) ... التشہد) ".

(کتاب الصلاۃ، باب صفة الصلاۃ، ج: 1، ص: 442 - 448، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"في الدر:ثم الركن ما يكون فرضا داخل الماهية، وأما الشرط فما يكون خارجها."

"في الرد:(قوله: داخل الماهية) يعني بأن يكون جزءا منها يتوقف تقومها عليه، والماهية ما به الشيء هو هو، سميت بها لأنه يسأل عنها بما هو.

(قوله: وأما الشرط) هو في اللغة العلامة. وفي الاصطلاح ما يلزم من عدمه العدم ولا يلزم من وجوده وجود ولا عدم، وقوله فما يكون خارجها بيان للمراد به هنا، والمراد ما يجب تقديمه عليها واستمراره فيها حقيقة أو حكما، فالشرط والركن متباينان كذا في الحلية."

(كتاب الطهارة، أركان الوضوء،  ج: 1، ص: 94، ط: سعيد)

و فیہ ایضاً:

"اعلم أن المتعلق بالشيء إما أن يكون داخلا في ماهية فيسمى ركنا كالركوع في الصلاة، أو خارجا عنه، فإما أن يؤثر فيه كعقد النكاح للحل فيسمى علة، أو لا يؤثر، فإما أن يكون موصلا إليه في الجملة كالوقت فيسمى سببا، أو لا يوصل إليه، فإما أن يتوقف الشيء عليه كالوضوء للصلاة فيسمى شرطا أو لا يتوقف كالأذان فيسمى علامة كما بسطه البرجندي، فكان عليه أن يزيد ولا يؤثر فيه ولا يوصل إليه في الجملة إسماعيل."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ج: 1، ص: 402، ط: سعيد)

فقط اللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412100034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں