بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کی قراءت اور دوسرے واجبات کو سکھانے کی اجرت لینے کا حکم


سوال

کیا نماز کی قرات اور دوسرے واجبات کو سکھانے کی اجرت لیناجائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کے معاوضہ میں اجرت اور تنخواہ لینا نیز مؤذن ،امام و خطیب اور قاضی کے لئے اجرت لینا جائز ہے، چناچہ حضرات خلفاء راشیدین نے اپنے اپنے دور میں ان حضرات کو وظیفہ اور تنخواہیں دیں ، لہذاصورت مسئولہ میں  نماز کی قرائت اور دوسرے واجبات کو سکھانے کی اجرت لینا شرعاً جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضا في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار.وزاد بعضهم الأذان والإقامة والوعظ."

(كتاب الإجارة‌‌،باب الإجارة الفاسدة،مطلب في الاستئجار على الطاعات،ج:6،ص:55،ط:سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"‌قال - ‌رحمه ‌الله - (‌والفتوى ‌اليوم ‌على ‌جواز ‌الاستئجار ‌لتعليم ‌القرآن) ، ‌وهذا ‌مذهب ‌المتأخرين ‌من ‌مشايخ ‌بلخ ‌استحسنوا ‌ذلك وقالوا بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان وكان محمد بن الفضل يفتي بأن الأجرة تجب ويحبس عليها وفي الخلاصة إذا أخذ المعلم من الصبي شيئا من المأكول أو دفع الصبي ذلك إلى ولد المعلم لا يحل له بخلاف ثمن الحصر؛ لأن ذلك تمليك من أب الصغير. اهـ"

(كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،أخذ أجرة الحجام،ج:8،ص:22،ط:دار الكتاب الإسلامي)

کفایۃ المفتی میں ہے:

"قرآن پاک اور علوم دینیہ کی تعلیم کی اجرت متاخرین حنفیہ کے فتوے کے بموجب جائز ہے، حنفیہ کا اصل مسلک عدم جواز تھا، جواز کا فتویٰ انہوں نے ضرورت کی بناء پر دیا ہے، تعلیم کی اجرت کے جواز کی  ضرورت ظاہر ہے،کہ اگر اجرت لینی نا جائز قرار دی جائے تو اس کا نتیجہ ترک تعلیم کی صورت میں ظاہر ہوگااور قرآن مجید اور علوم دینیہ کی تعلیم کا متروک ہونا  عظیم الشان نقصان ہے، اس لئے جواز اجرت کا فتوی ٰ دیدیا گیا اسی پر امامت و افتاء کو بھی قیاس کیا گیا۔"

(کتاب العلم،ج:2،ص41،ط: دار الاشاعت)

راہ سنت میں ہے:

"قرآن کریم کی تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کے معاوضہ میں اجرت اور تنخواہ لینا نیز مؤذن ،امام و خطیب اور قاضی کے لیے اجرت و تنخواہ لینا جائز ہے، حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین  نے اپنے اپنے دور میں ان حضرات کو وظیفہ اور تنخواہیں دی۔ اگر یہ کارروائی ناجائز ہوتی تو یقیناً حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین اس کا کبھی بھی ارتکاب نہ کرتے اور حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کا عمل اور سنت بفحوائے حدیث :عليكم بسنتي و سنة الخلفاءالراشدين (الحدیث)امت کے لے مشعل ِراہ ہے، جس سے ان کے لیے کوئی مخلص نہیں ہے امام ابو الفرج عبدالرحمن ابن جوزی سن 597 ہجری لکھتے ہیں کہ: ان عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان كانا يرزقان المؤذنين والائمة والمعلمين .ترجمہ :حضرت عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان مؤذنوں اماموں اور معلموں کو وظائف اور تنخواہیں دیا کرتے تھے، (سیرت العمرین لابن جوزی ص165)۔"

(تلاوت قرآن کریم پر اجرت لینا،ص:255،ط:مکتبہ صفدریہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں