بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کی نیت، مقتدی کا قعدہ اولی میں تشہد پڑھنے، وضو کا پانی کپڑوں پر لگنے کا حکم


سوال

1۔ اگر گھر سے نکلتے وقت نماز کی نیت تھی، مگر مسجد پہنچ کر دوبارہ نیت نہیں کی تو کیا حکم ہوگا؟

2۔اگر وضو کرتے وقت بازو یا چہرے سے پانی ٹپک کر کپڑوں پر لگ جائے تو کیا حکم ہوگا؟

3۔اگر مقتدی امام کے پیچھے درمیانی قعدہ میں تشہد کے بعد درود شریف بھی مکمل یا اَدھوری پڑھ لے تو کیا حکم ہوگا؟

جواب

1۔واضح رہے کہ نیت صرف دل سے ارادہ کرلینے کا نام ہے، اگر کوئی شخص گھر سے اس ارادہ سے نکلا کہ وہ نماز کے لیے جارہا ہے ،اور مسجد جا کر اس نے دوبارہ زبان سے کوئی نیت نہیں کی، باقی دل میں اس نماز کی نیت ہو جس کے  لیے آیا ہے  تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑےگا،كيوں كہ نیت کی صحت کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا لازم اورضروری نہیں ہے لیکن اگر دل بھی نماز کی نیت سے خالی ہو تو نماز نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وروي عن أبي يوسف فيمن ‌خرج ‌من ‌منزله يريد الفرض في الجماعة فلما انتهى إلى الإمام كبر ولم تحضره النية في تلك الساعة - أنه يجوز.قال الكرخي: ولا أعلم أحدا من أصحابنا خالف أبا يوسف في ذلك، وذلك لأنه لما عزم على تحقيق ما نوى فهو على عزمه ونيته إلى أن يوجد القاطع ولم يوجد وبه تبين أن معنى الإخلاص يحصل بنية متقدمة؛ لأنها موجودة وقت الشروع تقديرا على ما مر."

(فصل شرائط ارکان الصلوٰۃ، ج:1،ص:129، ط:سعید)

2۔جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اس پانی کا حکم یہ ہے کہ وہ استعمال کے بعد پاک رہتا ہے، لیکن مطہر (پاک کرنے والا) نہیں رہتا یعنی اس پانی سے دوبارہ وضو نہیں کیا جا سکتا، لیکن وہ پانی چوں کہ پاک ہوتا ہے، اس لیے اس پانی کی چھینٹیں اگر کپڑوں پر لگ جائیں تو اس سے کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے۔

فتاوى هنديہ میں ہےـ:

"اتفق أصحابنا - رحمهم الله - أن الماء المستعمل ليس بطهور حتى لايجوز التوضؤ به واختلفوا في طهارته قال محمد - رحمه الله -: هو طاهر وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله- وعليه الفتوى. كذا في المحيط."

 (کتاب الطھارۃ، الفصل الثاني فیما لایجوز به التوضؤ، ج:1، ص:22، ط: رشيديه)

3۔مقتدی کو (فرض اور وترکے) قعدہ اولی میں التحیات پر ہی اکتفا کرنا چاہیے، اس کے بعد درود شریف پڑھنے کی عادت نہیں بنانی چاہیے، البتہ سہوًا یا قصدًا اگر کوئی شخص درود شریف پڑھ لے تو اس پڑھنے کی وجہ سے نہ اس کی نماز فاسد ہوگی، اور نہ ہی سجدہ سہو لازم ہوگا، البتہ اگر منفرد یا امام ایسا کرےاور درود شریف   اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍتک یا اس سے زیادہ پڑھ لے تو  تاخیر کی وجہ سے سجدۂ سہو لازم ہوجائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"سهو الإمام يوجب عليه و على من خلفه السجود، كذا في المحيط ... سهو المؤتم لايوجب السجدة."

(كتاب الصلاة، الباب الثاني عشر في سجود السهو، فصل سهو الإمام يوجب عليه وعلى من خلفه السجود،ج:1،ص:128، ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"و كذا لو زاد على التشهد الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات. و اختلفوا في قدر الزيادة فقال بعضهم: يجب عليه سجود السهو بقوله: "اللهم صل على محمد"، و قال بعضهم: لايجب عليه حتى يقول: "و على آل محمد"، و الأول أصح، و لو كرره في القعدة الثانية فلا سهو عليه، كذا في التبيين."

( كتاب الصلاة، الباب الثانی عشر فی سجود السهو،ج:1،ص:127، ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں