بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورت سے قبل بسم اللہ کا حکم


سوال

4  رکعات سنت نماز  کی نیت کرنے کے بعد   ’’اللّٰه أكبر‘‘  کہہ کر   ’’سبحانك اللّٰهم‘‘ پڑھی۔  پھر ’’أعوذ باللّٰه،  بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرحیم‘‘۔پھر الحَمدُشریف کے بعد  پھر بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورت  ملائی، رکوع، سجدہ ، پھر  دوسری رکعت میں الحمد اللہ سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر الحمد اللہ  پڑھی پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورت ملا کر رکوع سجدہ کیا۔

پوچھنا ہے کہ سنت نماز میں کیا دوسری تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد سے پہلے ’’بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرحیم‘‘پڑھنا اور الحمدکے بعد سورت ملانے سے پہلے ’’بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرحیم‘‘ کیسا ہے؟ اسی طرح فرض نماز میں اگر بندہ اپنی نماز پڑھ رہا ہے تو دوسری تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد سے پہلے  ’’بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرحیم‘‘ملانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ امام اور منفرد  ’’تنہا ‘‘  نماز  پڑھنے والے کے لیے  نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے آہستہ آواز سے  ’’بسم اللہ ‘‘ پڑھنا سنت ہے، اور سورہ فاتحہ کے بعد  دوسری سورت شروع کرنے سے پہلے ’’بسم اللہ‘‘ پڑھنا مستحب ہے۔ لیکن نماز کی کسی بھی رکعت میں  سورت ملانے سے پہلےبسم اللہ پڑھنا لازم (بمعنی واجب) نہیں ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  چار رکعت نماز ِسنت کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے  "بسم اللہ  الرحمن الرحیم"  پڑھنا سنت ہے، اور سورہ فاتحہ کے بعد دوسری سورت شروع کرنے  سے پہلے "بسم اللہ  الرحمن الرحیم"  پڑھنا مستحب ہے۔

نیز اسی طرح  امام اورمنفرد  (تنہا  چار  رکعت نماز فرض  پڑھنے والےکے لیے نماز کی ہر رکعت   میں سورہ فاتحہ سے پہلے "بسم اللہ  الرحمن الرحیم" پڑھنا سنت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"(و) كما تعوذ (سمى) غير المؤتم بلفظ البسملة، لا مطلق الذكر كما في ذبيحة ووضوء (سراً في) أول (كل ركعة) ولو جهريةً (لا) تسن (بين الفاتحة والسورة مطلقاً) ولو سريةً، ولاتكره اتفاقاً، وما صححه الزاهدي من وجوبها  ضعفه في البحر.(قوله: وكما تعوذ سمى) فلو سمى قبل التعوذ أعاده بعده لعدم وقوعها في محلها، ولو نسيها حتى فرغ من الفاتحة لايسمي لأجلها لفوات محلها، حلية وبحر، ولا مفهوم لقوله: حتى فرغ كما تقدم، فافهم (قوله: غير المؤتم) هو الإمام والمنفرد، إذ لا دخل للمقتدي؛ لأنه لايقرأ بدليل أنه قدم أنه لايتعوذ، بحر ... (قوله: سراً في أول كل ركعة) كذا في بعض النسخ وسقط سراً من بعضها ولا بد منه. ... (قوله: ولو جهريةً) رد على ما في المنية من أن الإمام لايأتي بها إذا جهر، بل إذا خافت فإنه غلط فاحش، بحر، وأوله في شرحها بأنه لايأتي بها جهراً ... وذكر في المصفى: أن الفتوى على قول أبي يوسف: إنه يسمي في أول كل ركعة ويخفيها" ... مطلب قراءة البسملة بين الفاتحة و السورة حسن."

(کتاب الصلاۃ، باب صفة الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها، ج: 1، صفحہ: 490، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں