بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پہلے اور سورہ فاتحہ کے بعد بسم اللہ پڑھنے کا حکم


سوال

نماز کی ہر رکعت میں سورت  فاتحہ سے پہلے  بسم اللہ پڑھنا ضروری ہوتی  ہے کیا؟ اور سورت فاتحہ کے بعد ہر سورت سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب

نماز کی ہر رکعت میں سورۂ  فاتحہ سے پہلے اور سورۂ  فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ ضروری نہیں،  بلکہ امام اور تنہا نماز  پڑھنے والے مرد اورعورت کے لیے پہلی رکعت میں ثناء  یعنی "سبحانك اللّٰهم ..." مکمل اور تعوذ یعنی: أعوذ باللّٰه من الشیطٰن الرجیم پڑھنےکے بعد تسمیہ یعنی: بسم اللّٰه الر حمٰن الرحیم پڑھنا سنت ہے۔ اور  پہلی رکعت کے بعد باقی تمام رکعتوں میں  سورۂ فاتحہ کی تلاوت سے پہلے ثناء اور تعوذ کے بغیر صرف    بسم اللّٰه الر حمٰن الرحیم پڑھنا سنت ہے۔

  مقتدی امام کے  پیچھے  پہلی رکعت میں صرف ثناء  "سبحانك اللّٰهم ..."  پڑھ کر خاموش رہے گا؛  کیوں کہ مقتدی کے لیے امام کی اقتدا  میں قراءت جائز نہیں۔  تعوذ   (أعوذ باللّٰه من الشیطٰن الرجیم) اور تسمیہ (بسم اللّٰه الر حمٰن الرحیم) قراءت کے تابع ہیں۔ مسبوق (جس سے رکعت چھوٹ جائے) کے  لیے امام کے سلام کے بعد بقیہ نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت سے پہلے  بسم اللّٰه الر حمٰن الرحیم پڑھنا سنت ہے۔

اور امام یا تنہا نماز پڑھنے والے شخص کے لیے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد  سورت شروع کرنے سے پہلے بھی  بسم اللّٰه الر حمٰن الرحیم پڑھنا  مستحب ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(ثم يأتي بالتسمية) ويخفيها وهي من القرآن آية للفصل بين السور، كذا في الظهيرية فيما يكره في الصلاة. و لايتأدى بها فرض القراءة، كذا في الجوهرة النيرة. و يأتي بها في أولّ كلّ ركعة و هو قول أبي يوسف - رحمه الله -، كذا في المحيط. و في الحجة: وعليه الفتوى."

(الباب الرابع في صفة الصلاة/ لفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها/ج: 1/ صفحہ: 74/ ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والمسبوق من سبقه الإمام بها أو ببعضها وهو منفرد) حتى يثني ويتعوذ ويقرأ. (قوله: والمسبوق من سبقه الإمام بها) أي بكل الركعات، بأن اقتدى به بعد ركوع الأخيرة، وقوله أو ببعضها: أي بعض الركعات (قوله: حتى يثني إلخ) تفريع على قوله منفرد فيما يقضيه بعد فراغ إمامه، فيأتي بالثناء والتعوذ لأنه للقراءة ويقرأ لأنه يقضي أول صلاته في حق القراءة كما يأتي؛ حتى لو ترك القراءة فسدت."

(باب الإمامة/ مطلب في أحكام المسبوق والمدرك اللاحق/ج: 1/ صفحہ: 596/ ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضًا:

"تفريعًا على قوله لقراءة بناء على قول أبي حنيفة ومحمد أن التعوذ تبع للقراءة. أما عند أبي يوسف فهو تبع للثناء، فعنده يأتي به المسبوق بعد الثناء مرتين حال اقتدائه وعند قيامه للقضاء؛ ويأتي به المقتدي المدرك لأنه يثني كما يأتي به الإمام والمنفرد، ويأتي به الإمام والمقتدي في العيد بعد الثناء قبل التكبيرات، ومشى عليه في المنية، وفي الخلاصة أنه الأصح، لكن مختار قاضي خان والهداية وشروحها والكافي والاختيار وأكثر الكتب هو قولهما إنه تبع للقراءة وبه نأخذ شرح المنية."

(باب صفة الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها/ج: 1/ صفحہ: 490/ ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں