بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کی دو رکعتوں میں دو سورتوں کے درمیان میں کوئی مختصر سورت چھوڑنے کا حکم


سوال

کیا نماز کی دو رکعت میں ایک سورہ کو چھوڑ کر تیسری سورہ پڑی جا سکتی ہے؟مثلا اذا جا ءکے بعد اخلاص پڑھی  جائے۔

جواب

فرض نماز کی دو رکعتوں میں دو   سورتوں کے درمیان میں کوئی مختصر سورت   قصدًا  چھوڑنا مکروہ تنزیہی ہے،   لہذا سورة النصر اور سورة الاخلاص کے  درمیان  سورہ  لہب قصدًا   چھوڑدینا مکروہ تنزیہی ہے۔ البتہ ایسی  بڑی سورت کا فاصلہ کرنا جس سے دو رکعت بن سکتی ہیں، یا ایک سے زائد مختصر سورتوں کا فاصلہ دیناجیسے پہلی رکعت میں سورۂ فیل اور دوسری رکعت میں سورہ  کوثر پڑھنا تویہ  بلا کراہت جائز ہو گا۔نیز نوافل میں مختصر سورت کا فاصلہ ہو تو بھی مکروہ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ بعض لوگ سورۃ النصر کے بعد اگلی رکعت میں بالقصد سورۃ الاخلاص پڑھتے ہیں اور سورۂ لہب کو درمیان میں اس لیے چھوڑتے ہیں کہ اس میں ابولہب کی تباہی کی خبر اور اس کی شدید مذمت ہے، جب کہ  ابولہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی میں اپنی باندی آزاد کی تھی، اس لیے  یہ لوگ بزعم خویش اسے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال سمجھتے ہیں، اور  اس سورت کو ختمِ قرآن مجید کے علاوہ پڑھنے کو پسند نہیں کرتے، یہ خیال باطل ہے، اور اللہ  جل شانہ اور  رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا اور محبت کے درمیان تفریق کی خود ساختہ کوشش ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بد دعا دیں، اور اس کی تباہی کی خبر قرآن مجید میں آجائے، اس کے لیے اتنا نرم گوشہ رکھنا کہ  لازوال کلام کی آیات کی تلاوت چھوڑدی جائیں یہ عشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا نہیں، قرآن کریم پر ایمان کی کم زوری ہوسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله: (ويكره الفصل بسورة قصيرة ) أما بسورة طويلة بحيث يلزم منه إطالة الركعة الثانية إطالة كثيرة فلايكره،شرح المنية، كما إذا كانت سورتان قصيرتان وهذا لو في ركعتين."

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الصلاة، باب الإمامة (1/ 546، 547)،ط. سعيد)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

وفي القنية قرأ في الأولى الكافرون وفي الثانية - ألم تر - أو - تبت - ثم ذكر يتم، وقيل يقطع ويبدأ، ولا يكره في النفل شيء من ذلك.

(وفي رد المحتار): (قوله ألم تر أو تبت) أي نكس أو فصل بسورة قصيرة ط.

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الصلاة، باب الإمامة (1/ 547)،ط. سعيد)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201967

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں