بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کی ادائیگی کے لیے اذان سننے کا حکم


سوال

(1) ایک سوال یہ ہے کہ میں جس آفس میں کام کرتا ہوں، وہاں مجھے اذان سُنائی دیتی ہے اور میں نماز ادا کر لیتا ہوں، لیکن قریب  کی مسجد میں اذان لیٹ ہوتی ہے۔ کیا میری نماز ادا ہو جاتی ہے؟کیا نماز پڑھنے کے لیے اذان کا سننا لازمی ہےیا نماز کا وقت ہوتے نماز ادا کرلینی چاہیے؟(2)دوسرا یہ کہ کیا  نماز پڑھنے کے لیے اپنے ہی مسلک کی اذان سننا لازمی ہے، دوسرے مسلک کی اذان پر نماز پڑھنا کیساہے؟؟

جواب

1) واضح رہےکہ نماز  کا وقت داخل ہوتے ہی نماز  پڑھنا  جائز ہو جاتا ہے، اور ا ذان نماز کا وقت داخل ہونے کے اعلان کے لیے اور باجماعت نماز کی طرف دعوت دینے کے لیے ہوتی ہے ،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل  نے کچھ فاصلے سے اذان سنائی  دینے کے بعد   محلے کی اذان کا انتظار کیے بغیر نماز ادا کر لی تو  نماز ہو جائے گی۔البتہشریعت میں مردوں کے لیے فرض نماز جماعت سے  پڑھنا سنتِ مؤکدہ اور واجب کے درجہ میں ہے،اور بلا عذر  جماعت کے بغیر یعنی تنہا نماز پڑھنے کی عادت بنا لینا بڑا سخت گناہ ہے، اس لیے  نماز اپنے وقت پر مسجد میں با جماعت  ادا کرنی چاہیے، تاکہ جماعت کی فضیلت  حاصل ہو اور جماعت چھوڑنے کی سزا سے حفاظت بھی ہو جائے ۔

2)فرض نماز پڑھنے کے لیے اس کا وقت ہو جانا شرط ہے،اور وقت داخل ہونے کے بعد نماز پڑھنے کے لیے ( کسی بھی مسلک کی)     اذان سننا شرط نہیں ہے، لیکن اگر دوسرے مسلک کی اذان وقت شروع ہونے سے  پہلے ہوتی ہو تو اس کے مطابق نماز ادا کرنا درست نہیں ، البتہ جب محلے یا ارد گرد کے علاقوں میں (پورے شہر میں) کہیں بھی اذان نہ ہوئی ہو اور وقت داخل ہو چکا ہو ،تو اکیلے فرض نماز پڑھنے والے کے لیے اذان  (و اقامت) دینا مستحب ہے۔

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا الأعمش قال: سمعت أبا صالح يقول: سمعت أبا هريرة يقول:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (صلاة الرجل في الجماعة تضعف على صلاته في بيته، وفي سوقه، خمسة وعشرين ضعفا، وذلك أنه: إذا توضأ فأحسن الوضوء، ثم خرج إلى المسجد، لا يخرجه إلا الصلاة، لم يخط خطوة، إلا رفعت له بها درجة، وحط عنه بها خطيئة، فإذا صلى، لم تزل الملائكة تصلي عليه، ما دام في مصلاه: اللهم صل عليه، اللهم ارحمه، ولا يزال أحدكم في صلاة ما انتظر الصلاة)"

(باب فضل الجماعة (1/ 232 ت البغا)

"ترجمہنبی کریم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ارشاد فرمایا:"آدمی کی وہ نماز جو جماعت سے پڑھی گئی ہو، اُس نماز سے جو گھر میں پڑھ لی ہو یا بازار میں پڑھ لی ہو، پچیس گنا بڑھ کر ہے؛ اور بات یہ ہے کہ جب آدمی وضو کرتا  ہے اور خوب اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد کی طرف صرف نماز کے ارادے سے چلتا ہے؛ کوئی اور ارادہ اس میں شامل نہیں ہوتا، تو جو قدم بھی رکھتا ہے اس کی وجہ سے ایک نیکی بڑھ جاتی ہے اور ایک خطا معاف ہوجاتی ہے؛ اور پھر جب  نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک وہ با وضو بیٹھا رہے گا، فرشتے اس کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں؛ اور جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے  وہ نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے۔"

مسلم شریف میں  ہے:

 عن أبي هريرة؛ قال: أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل أعمى. فقال: يا رسول الله! إنه ليس لي قائد يقودني إلى المسجد. فسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يرخص له فيصلي في بيته. فرخص له. فلما ولى دعاه فقال:"هل تسمع النداء بالصلاة؟" فقال: نعم. قال "فأجب".

(باب يجب إتيان المسجد على من سمع النداء،ج1، ص452، مطبعة عيسى البابي الحلبي القاهرة)

"ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ کے پاس ایک نابینا صحابی آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے مسجد تک لایا کرے ؛ وہ اپنے لیے گھر میں نماز پڑھنے کی رخصت مانگ ہے تھے،  تو آپ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی؛پھر جب وہ (واپسی کے لیے) مُڑے ، تو  آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے انہیں بلایا اور فرمایا: "کیا تمہیں اذان کی آواز سنائی دیتی ہے؟"، انہوں نے جواب دیا: جی ،(مجھے اذان  کی  آواز سنائی دیتی ہے) ! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تب تو اس کا جواب دیا کرو ( جماعت میں حاضر ہوا کرو)۔"

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: لا لمصل في بيته في المصر) أي لا يكره تركهما له والفرق بينهما أن المقيم إذا صلى بدونهما حقيقة فقد صلى بهما حكما؛ لأن المؤذن نائب عن أهل المحلة فيهما فيكون فعله كفعلهم )".

(قبيل باب شروط  الصلاة، ج1، ص279، ط: دار الكتاب الإسلامي)

عالمگیری میں ہے:

"ولا يكره تركهما لمن يصلي في المصر إذا وجد في المحلة ولا فرق بين الواحد والجماعة. هكذا في التبيين والأفضل أن يصلي بالأذان والإقامة كذا في التمرتاشي وإذا لم يؤذن في تلك المحلة يكره له تركهما ولو ‌ترك ‌الأذان وحده لا يكره كذا في المحيط ولو ترك الإقامة يكره. كذا في التمرتاشي."

(الفصل الأول في صفة الأذان و المؤذن، ج1، ص54، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

مجمع الأنہر میں ہے:

"(لا) ‌يكره ‌تركهما ‌معا (لمصل في بيته في المصر) إذا وجد في مسجد المحلة لقول ابن مسعود - رضي الله تعالى عنه - في رواية يكفينا أذان الحي وإقامته۔(وندبا) أي الأذان والإقامة معا (لهما) أي المسافر والمصلي في بيته".

(باب الأذان، ج1، ص 75، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وندبا لهما) أي الأذان والإقامة للمسافر والمصلي في بيته في المصر ليكون الأداء على هيئة الجماعة."

(قبيل باب شروط الصلاة، ج1، ص 280، ط:   دار الكتاب الإسلامي)

عالمگیری میں ہے:

"وندب الأذان والإقامة للمسافر والمقيم في بيته وليس على العبيد أذان ولا إقامة. كذا في التبيين."

(الفصل الأول في صفة الأذان و المؤذن، ص1، ج53، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں