بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے علاوہ اور کن مواقع پر اذان دی جاسکتی ہے؟


سوال

اذان نماز کے علاوہ اور کن مواقع پر دینی چاہیے؟

جواب

اذان کی مشروعیت نماز کے وقت کی خبر دینے کے لیے ہے، اس لیے پانچ وقت کی نماز کے لیے اذان  دینا سنت ہے، اس کے علاوہ دیگر نمازوں اور نوافل وغیرہ میں اذان دینا مشروع نہیں ہے، نیز فرض نماز کے علاوہ  بچے کی پیدائش پر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا بھی حدیث سے ثابت ہے۔

اس کے علاوہ  فقہاءِ کرام نے احادیثِ مبارکہ کی روشنی   میں بعض دیگر مواقع پر بھی اذان دینے کو مستحب کہا ہے، وہ چند مواقع یہ ہیں:

(1)   رنج و غم میں مبتلا شخص کے کان میں۔

(2)   مرگی کے مریض کے کان میں۔

(3)  جو شخص غصہ و غضب کی حالت میں ہو اس کے کان میں۔

(4)  بد مزاج انسان یا جانور کے کان میں۔

(5)  اہلِ باطل کے ساتھ لڑائی کی شدت کے وقت۔

(6)   آتش زدگی کے وقت۔

(7)   جہاں آسیب یعنی جن کا اثر ہو اور وہ تکلیف دیتا ہو اور جنات ظاہر ہوکر ڈرائیں۔

(8)   جب مسافر جنگل میں رستہ بھول جائے اور کوئی بتلانے والا نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے :

" مطلب في المواضع التي يندب لها الأذان في غير الصلاة.

(قوله: لايسنّ لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه. أقول: ولا بعد فيه عندنا. اهـ. أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه، لما قدمناه في الخطبة عن الحافظ ابن عبد البر والعارف الشعراني عن كل من الأئمة الأربعة أنه قال: إذا صح الحديث فهو مذهبي، على أنه في فضائل الأعمال يجوز العمل بالحديث الضعيف كما مر أول كتاب الطهارة، هذا، وزاد ابن حجر في التحفة الأذان والإقامة خلف المسافر. قال المدني: أقول وزاد في شرعة الإسلام لمن ضل الطريق في أرض قفر: أي خالية من الناس. وقال المنلا علي في شرح المشكاة قالوا: يسن للمهموم أن يأمر غيره أن يؤذن في أذانه فإنه يزيل الهم، كذا عن علي - رضي الله عنه - ونقل الأحاديث الواردة في ذلك فراجعه. اهـ."

(1/385،باب الاذان، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں